شہری علاقوں کا مستقبل؟

سال دوہزارچوبیس کے عام انتخابات اس لحاظ سے منفرد رہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں (مسلم لیگ (نواز)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف) کے انتخابی منشور میں پائیدار قومی ترقی کو فروغ دینے کے لئے شہری منصوبہ بندی کی اہمیت کو تسلیم کیا گیا ہے‘یہ دلچسپ بات ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں اسی طرح کے ادارہ جاتی ڈھانچے‘ پالیسیوں اور قواعد و ضوابط‘ یہاں تک کہ منصوبوں کا بھی عوام سے وعدہ کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (نواز)‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے بلدیاتی حکومت کے نظام کی اصلاح اور بلدیاتی اداروں کو زیادہ بااختیار بنانے کا وعدہ کیا ہے جو شہری منصوبہ بندی کی بنیاد ہے‘ انہوں نے مقامی حکومتوں کی مالی خود مختاری اور انتظامی صلاحیت قائم کرنے اور اسے ”حکومت کے تیسرے درجے“ کے طور پر ترقی دینے کا وعدہ کیا ہے‘ مسلم لیگ (نواز) کے منشور میں ترقیاتی اتھارٹیز اور کمپنیوں کو مربوط شہری حکومت میں ضم کرنے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے جو پبلک ٹرانسپورٹ‘ ہاو¿سنگ‘ ماحولیات اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ جیسی خدمات کی فراہمی کے لئے ذمہ دار ہوگی۔ شہری منصوبہ بندی کے ماہر کی حیثیت سے‘ راقم الحروف اِن وعدوں کا خیرمقدم کرتا ہوں۔ ہم جانتے ہیں کہ نیو یارک‘ لندن‘ پیرس اور دیگر خوشحال و زندہ رہنے کی صلاحیت رکھنے والے شہروں میں قدر مشترک یہ ہے کہ وہاں مقامی حکومتیں فعال ہیں۔مسلم لیگ (نواز)‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے جو قومی اور مقامی موسمیاتی تبدیلی کے منصوبے تیار کرنے کا وعدہ کیا ہے اُس کے نتیجے میں یقیناً شہری منصوبہ بندی یعنی ماسٹر پلاننگ کو ترجیح دی جائے گی اور ایک جامع ریگولیٹری فریم ورک تیار کیا جائے گا‘ جو ماحولیاتی انحطاط سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے۔ اِس سلسلے میں رپورٹنگ کی ضروریات اور عدم تعمیل پر جرمانے کا خاکہ بھی تیار کیا جائے گا۔پیپلزپارٹی کے انتخابی منشور کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں ماحولیات کو ’انسانی حقوق‘ کا مسئلہ قرار دیا گیا ہے جسے پالیسی سازی اور بجٹ سازی کے تمام پہلوو¿ں کو یکجا کرکے حل کیا جانا چاہئے اور جامع و موافق ترقی کو اِس سے فروغ ملنا چاہئے۔ تینوں سیاسی جماعتیں ایندھن کی بچت‘ برقی گاڑیوں اور پبلک ٹرانسپورٹ کو فروغ دینا چاہتی ہیں تاکہ شہری سہولیات کے نظام کو بہتر بنایا جا سکے۔ اِس حوالے سے پبلک ٹرانسپورٹ پر بھی خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف بڑے شہروں میں ریل یا بی آر ٹی پر مبنی ماس ٹرانزٹ سسٹم تیار کرنے اور پائیدار نقل و حرکت‘ صاف ہوا اور خواتین کی نقل و حرکت کو فروغ دینے کے لئے دوسرے اور تیسرے درجے کے شہروں میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام قائم کرنے پر متفق ہیں۔ تحریک انصاف کے منشور میں پبلک ٹرانسپورٹ منصوبوں کی فنڈنگ کے لئے جدید طریقہ¿ کار کے طور پر ٹرانزٹ پر مبنی ترقی اور ویلیو کیپچر کو مزید فروغ دیا گیا ہے۔ چین اور بھارت نے اِس حکمت عملی کو اپنے شہری علاقوں کی بحالی اور نقل و حمل میں سرمایہ کاری کے لئے مقامی حکومتوں کے لئے فنڈنگ کا مستحکم ذریعہ تیار کرنے کے لئے استعمال کیا ہے۔ مستحکم فنڈنگ بڑے پیمانے پر عوامی نقل و حمل کے منصوبوں کو فروغ دینے کی کلید ہے۔ہاو¿سنگ کے شعبے نے گزشتہ 75 برس میں سیاسی جماعتوں اور حکومتوں کی توجہ حاصل کی ہے جسے انسانی حق قرار دیا جاتا ہے لیکن اِس حق کی ادائیگی کے لئے خاطرخواہ اقدامات دیکھنے میں نہیں آئے۔ اُمید ہے کہ انتخابی وعدوں کو چھوٹے قصبوں اور سیٹلائٹ قصبوں کی ترقی‘ بڑے پیمانے پر ہاو¿سنگ منصوبوں کی تعمیر اور کچی آبادیوں کو باقاعدہ بنا کر پورا کیا جائے گا۔ زوننگ اور لینڈ یوز ریگولیشنز کے ذریعے‘ شہری سرحدوں کو واضح کیا جائے گا اور اونچی عمارتوں اور تجارتی ترقی کو فروغ دیا جائے گا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ شہری منصوبہ بندی کی اہمیت پاکستان کے ادارہ جاتی اور سیاسی نظام نے واضح طور پر تسلیم نہیں کیا ہے۔ اس کی ایک وجہ صوبائی خود مختاری کے بارے میں اتفاق رائے کی عدم موجودگی اور وفاقی سطح پر شہری ترقی کی وزارت کی عدم موجودگی ہے۔ تین بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں شہری منصوبہ بندی کے لئے وعدے خوش آئند ہیں۔ وہ اپنے دیگر اختلافات کے باوجود ادارہ جاتی اصلاحات‘ پالیسیوں‘ قواعد و ضوابط اور منصوبوں پر اتفاق رائے رکھتے ہیں۔ اگر یہ سیاسی جماعتیں ’چارٹر آف اربن فیوچر‘ پر دستخط کریں تو شہری منصوبہ بندی پاکستان کو اکیسویں صدی میں لے جا سکتی ہے۔ یہ چارٹر اہم ہے کیونکہ شہری منصوبہ بندی اور بنیادی ڈھانچے کے مسائل کو کسی بھی سیاسی پارٹی کی پانچ سال کی مدت سے زیادہ وقت لگتا ہے۔ مزید برآں‘ پاکستان کے شہر ملک میں گرین ہاو¿س گیسوں کے اخراج میں ستر فیصد سے زیادہ کا حصہ ڈالتے ہیں۔ سال دوہزارچوبیس سے سال دوہزارپچاس تک شہری علاقوں کا رقبہ دوگنا ہو جائے گا اور تب نئے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے قدرتی اور مالی وسائل کی بڑی مقدار کی ضرورت ہوگی جو زرعی زمین اور ماحولیاتی نظام پر دباو¿ ڈالیں گے اور بالآخر ہمارے شہر و دیہات آب و ہوا کی تبدیلی جیسے خطرات کا سامنا کریں گے اگرچہ موسمیاتی تبدیلی‘ ہاو¿سنگ‘ مواصلات اور منصوبہ بندی کی وزارتیں وفاقی سطح کی شہری پالیسیوں سے نمٹتی ہیں لیکن یہ ادارے ناکافی ہیں کیونکہ یہ واحد مسائل پر توجہ مرکوز کرتے ہیں اور یہ ایسے کثیر الجہتی طریقوں کو متعارف کروانے میں ناکام رہتے ہیں جن سے شہر پاکستان کے مستقبل کو تشکیل دیا جا سکے۔ ضرورت اِس بات کی ہے کہ ملکی سطح پر ’فیڈرل اربن کمیشن‘ بنایا جائے جس کے تحت مناسب قانون سازی‘ عدالتی نظام‘ حکومتی پالیسیوں‘ قواعد و ضوابط اور جدید فنڈنگ میکانزم تیار کیا جائے جو قانون ساز پارلیمانوں اور فیصلہ ساز وزارتوں کی مدد کرے۔ مائیکرو لیول شہری منصوبہ بندی مقامی طور پر ترقیاتی اتھارٹیز، ڈی ایچ اے‘ میونسپل کارپوریشنز اور صوبائی شہری اکائیوں کے تحت ہوتی ہے تاہم مقامی اور صوبائی اقدامات کو پاکستان کی سطح کے تجزئیوں‘ غور و فکر اور ردعمل سے رہنمائی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ (مضمون نگار ٹرانسپورٹ اور شہری منصوبہ بندی کے پروفیسر ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر ایم عمران۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)