غذائی تحفظ کا ہدف

پائیدار زراعت‘ خوراک کا محفوظ نظام اور آب و ہوا کے تحفظ سے متعلق اقدامات پر غور کرنے کےلئے حالیہ عالمی اجلاس (سی او پی 28) متحدہ عرب امارات میں ہوا جس کا اعلامیہ عالمی موسمیاتی مذاکرات میں اہم سنگ میل رکھتا ہے۔ مذکورہ اعلامیے کی خاص بات یہ بھی ہے کہ اِس میں موسمیاتی تبدیلی اور غذائی تحفظ کے درمیان تعلق کو تسلیم کیا گیا ہے اور موسمیاتی تبدیلی کے مقابلے میں غذائی عدم تحفظ سے نمٹنے کی فوری ضرورت اجاگر کی گئی ہے۔ عالمی غذائی تحفظ کے لئے اجتماعی کاروائی اور بین الاقوامی تعاون کی ضرورت و اہمیت اپنی جگہ اتفاق رائے سے سامنے آئی ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کے مطابق‘ ہر فرد کو مناسب خوراک اور بھوک سے آزادی کا بنیادی حق حاصل ہے جسے ’خوراک کا حق‘ کہا جاتا ہے۔ خوراک کے حق کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کو یومیہ ضرورت کے مطابق کافی مقدار میں معیاری خوراک ملے لہٰذا تمام ممالک کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کے کھانے کے حق کا احترام‘ اُن کے تحفظ‘ غذائی فروغ‘ و سہولت اور خوراک کی فراہمی یقینی بنائیں۔خوراک کا تحفظ‘ عالمی ترجیحی ایجنڈا ہونے کے ناطے‘ مختلف حالتیں اُور صورتوں میں واضح ہے جس میں اقوام متحدہ کا پائیدار ترقیاتی ہدف بھی شامل ہے اور اِن سبھی حکمت عملیوں کا مقصد یہ ہے کہ دنیا سے بھوک کا خاتمہ ہو۔ غذائی تحفظ حاصل ہو۔ عوام کو ملنے والی غذا اور اُس کی غذائیت بہتر بنائی جائے اور سال دوہزارتیس تک پائیدار زراعت کو فروغ ملے۔ عالمی معاہدوں جیسا کہ روم اعلامیہ برائے ورلڈ فوڈ سیکورٹی (1996ئ) اور خوراک کے حق سے متعلق رہنما عالمی اصول (2004ئ) اِس مسئلے سے نمٹنے کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ صحت‘ غربت میں کمی‘ تعلیم اور ماحولیاتی استحکام سے متعلق متعدد پائیدار ترقیاتی اہداف کو عملی جامہ پہنانے کے لئے غذائی تحفظ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ موجودہ نازک دور میں غذائی تحفظ کا مسئلہ سب سے زیادہ باعث تشویش ہے‘ خاص طور پر پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں‘ جہاں بچوں اور خواتین پر خوراک کی کمی کے سنگین اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ بچوں میں غذائی قلت سے اُن کے نشوونما متاثر ہوتی ہے اور خوراک کی کمی سے انواع و اقسام کے مسائل جنم لیتے ہیں جیسا کہ نشوونما میں رکاوٹ اور کمزور مدافعتی نظام‘ اِس سلسلے میں وہ خواتین زیادہ متاثر ہوتی ہیں جو حاملہ ہوں یا جو اپنے شیرخوار بچوں کو دودھ پلاتی ہوں۔ غذائی عدم تحفظ اکثر بچوں‘ خاص طور پر لڑکیوں کو گھر کے کاموں یا گھریلو کام کاج میں مدد کرنے کے لئے سکول چھوڑنے پر بھی مجبور کرتا ہے۔انٹیگریٹڈ فوڈ سیکیورٹی فیز کلاسیفکیشن (آئی پی سی) کے تازہ ترین تجزیے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ پاکستان کے کچھ حصوں میں اکیس لاکھ چالیس ہزار سے زائد بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں جبکہ تقریبا قریب گیارہ لاکھ افراد کو اپریل دوہزارتیئس اور اکتوبر دوہزارتیئس کے درمیان شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑا۔ نومبر دوہزارتیئس اور جنوری دوہزارچوبیس کے درمیان صورتحال مزید خراب ہونے کا امکان ہے جہاں گیارہ لاکھ اَسی ہزار افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اقوام متحدہ کے مشترکہ ملکی تجزیے (یو این سی سی اے) کے مطابق سال دوہزاراکیس میں، پاکستان میں کم غذائیت سترہ فیصد کے قریب ہو گی جس سے ایک اندازے کے مطابق تین کروڑ بہتر لاکھ افراد یا تو براہ راست متاثر ہوں گے یا پھر اُنہیں کم غذائیت یا غذائی عدم تحفظ کا سامنا ہوگا۔ پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 36.7 فیصد بچوں کو ناکافی خوراک مل رہی ہے جن کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے! اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں خوراک کی کمی سے متاثرہ افراد کی بڑی تعداد رہتی ہے جن میں زیادہ تعداد بچوں کی ہے! پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں غذائی قلت کی شرح خطرناک حد تک زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ یہ ہولناک اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ غذائی تحفظ جیسے مشکل قومی چیلنج سے نمٹنے کے لئے جامع حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ اس حکمت عملی میں زرعی پیداوار میں اضافہ‘ خوراک کی تقسیم کے نظام کی توسیع‘ سماجی تحفظ میں بہتری اور مالی لحاظ سے کم آمدنی رکھنے والے افراد بالخصوص بچوں‘ خواتین اور معذور افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کی کوششیں حکومتی ترجیح میں شامل ہونی چاہیئں۔ قومی فیصلہ سازوں کی جانب سے زراعت اور خوراک کے نظام کو آب و ہوا کے عمل میں ضم کرنے کے لئے ٹھوس کوششیں کرنے کی ضرورت کا احساس ہونا چاہئے۔ اِن پالیسیوں کو مو¿ثر طریقے سے نافذ کرنے اور ان کی نگرانی کے لئے بین الاقوامی تنظیموں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ تعاون بھی الگ سے ضروری ہے۔ پالیسی سازوں‘ حکومتی اداروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز اور بین الاقوامی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرنے سے بہتر پالیسی نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کے لئے ایک ایسا غذائی نظام وضع کیا جائے جو پیداوار اور ضرورت کے درمیان فرق کو ختم کرے اور غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے سازگار ماحول فراہم کرے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر رضا حسین قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)