ٹیکنالوجی کی دنیا

قومی معیشت کو بہتر بنانے کے لئے ہائی ٹیک (ہائی ویلیو ایڈڈ) مصنوعات کی تیاری اور برآمدات پر توجہ اور وسائل مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ تسلیم شدہ حقیقت اور حکمت عملی ہے کہ قرضوں کے بوجھ سے چھٹکارا دلانے اور خود کفیل بنانے کے لئے ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری بہتر رہے گی۔ یہی حکمت عملی چین‘ کوریا‘ سنگاپور‘ تائیوان اور حال ہی میں ویت نام نے بھی اپنائی ہے۔ پاکستان فارماسیوٹیکل‘ سافٹ وئر انجینئرنگ اور متبادل توانائی سے لے کر الیکٹرانکس‘ انجینئرنگ سازوسامان اور نئے مواد تک ہائی ٹیک انڈسٹریل کلسٹرز آسانی سے قائم کرسکتا ہے۔ الیکٹرانکس کی صنعت مادی جدت طرازی میں سب سے آگے ہے کیونکہ یہ صنعت تیز‘ چھوٹے اور زیادہ توانائی کی بچت والے آلات کی ضروریات پورا کرنے کے لئے مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ سیمی کنڈکٹرز جیسے سلیکون کاربائیڈ اور گیلیئم نائٹرائڈ کی آمد نے پاور الیکٹرانکس میں گویا انقلاب سا برپا کر رکھا ہے جس کی وجہ سے سوئچنگ فریکوئنسی کی مدد سے توانائی کے نقصانات کم کئے جا رہے ہیں۔ اِن پیشرفتوں نے کمپیکٹ لیکن طاقتور الیکٹرانک آلات فراہم کئے ہیں۔ سمارٹ فونز سے برقی گاڑیوں تک‘ اسٹریچ ایبل الیکٹرانکس کے ابھرنے سے ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔ گرافین اور کاربن نینو ٹیوب جیسے مواد غیر معمولی میکانی خصوصیات کے حامل ہیں جن سے ہلکے پھلکے‘ موڑنے والے الیکٹرانک اجزا¿ کی تخلیق ممکن ہوتی ہے۔ ہوا بازی کے شعبے میں‘ ہلکا پھلکا مواد حفاظت اور پائیداری کو یقینی بناتے ہوئے ایندھن کی کارکردگی بڑھانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ کاربن فائبر ریانفورسڈ پولیمر (سی ایف آر پی) اور سیرامک میٹرکس کمپوزٹس (سی ایم سی) سمیت جدید کمپوزٹ مواد روایتی دھاتی مرکب کے مقابلے میں وزن میں نمایاں بچت پیش کرتے ہیں۔ نتیجتاً جدید ائر فریم‘ پروں اور انجن کے اجزا¿ میں مخلوط ڈھانچے شامل ہیں‘ جو ایندھن کی کھپت اور اخراج کو نمایاں طور پر کم کرتے ہیں۔ اعلیٰ درجہ حرارت والے مواد کی ترقی‘ جیسے نکل پر مبنی سپر الائے اور سیرامک کمپوزٹس‘ نے زیادہ مو¿ثر جیٹ انجنوں کے ڈیزائنز کو ممکن بنایا ہے۔ آٹوموٹو صنعت میں‘ ہلکے پھلکے مواد کی شمولیت سے ایندھن کے استعمال میں بہتری آئی ہے۔ ہلکی دھاتیں‘ جیسا کہ ایلومینیم‘ میگنیشیم اور ٹائٹینیم کے استعمال سے اشیا کا وزن کم کرنے میں مدد ملی ہے۔ روایتی سٹیل سے بنے اجزا¿ کو ہلکے پھلکے متبادل کے ساتھ تبدیل کر دیا گیا ہے جس سے آٹومیکرز گاڑیوں کی کارکردگی میں نمایاں بہتری حاصل کر رہے ہیں۔ برقی گاڑیوں (اِی ویز) کے عروج نے توانائی کی بچت کو ممکن بنایا ہے۔ بیٹری کی مدد سے چلنے والے آلات جیسا کہ لیتھیم آئن بیٹریوں اور سالڈ اسٹیٹ الیکٹرولائٹس کی طلب میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ مواد ’ای ویز‘ کو طویل ڈرائیونگ رینج اور تیز رفتار چارجنگ کے قابل بناتے ہیں‘ جسے وسیع پیمانے پر اپنانے سے اہم رکاوٹوں کو دور کیا جاسکتا ہے۔ نئے مواد نے انجینئرنگ سامان‘ صنعتی مشینری اور صارفین کی مصنوعات کے ڈیزائن اور تعمیر میں بھی انقلاب برپا کیا ہے۔ جدید مواد جیسے شکل میموری مرکب (ایس ایم اے) اور خود کو شفا بخش پولیمر انوکھی خصوصیات پیش کرتے ہیں جو مطابقت پذیر ڈھانچے اور اجزا¿ کو قابل بناتے ہیں۔ ’ایس ایم اے‘ درجہ¿ حرارت کی تغیرات کے جواب میں قابل واپسی شکل کی تبدیلیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ جس سے وہ ایکٹیوئٹرز‘ سنسرز اور بائیومیڈیکل ائمپلانٹس کے لئے مثالی بن جاتے ہیں۔ اسی طرح‘ خود کو شفا دینے والے پولیمر خود کار طریقے سے نقصانات کی مرمت کرسکتے ہیں۔ کراچی یونیورسٹی کے انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز میں چیئرمین حسین ابراہیم جمال فاو¿نڈیشن کے عزیز لطیف جمال کی نینو ٹیکنالوجی کے شعبے میں خدمات کی وجہ سے یہ تحقیقی و علمی مرکز بھی ملکی اور غیرملکی سطح پر توجہ کا مرکز ہے۔ حالیہ عام انتخابات کے بعد آنیوالی نئی حکومت کو ہائی ٹیک مصنوعات کی تیاری اور برآمدات کو اولین ترجیح دینا چاہئے۔ آج کی دنیا میں آگے بڑھنے کا یہی واحد راستہ ہے۔ نئے وزیر اعظم کو ایماندار‘ دور اندیش اور ٹیکنالوجی کے لحاظ سے قابل وزراءاور سیکرٹریز کا تقرر کرنا چاہئے تاکہ پاکستان بھی ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت میں ڈھل سکے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)