غذائی عدم تحفظ کا مقابلہ‘ مگر کیسے؟

جہاں میکرو اکنامک استحکام کو ترجیح دینا آنے والی حکومت کے ایجنڈے میں سرفہرست ہونے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہیں پاکستان میں غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے اہم مسئلے کو بھی یکساں ترجیح دینا ضروری ہے۔ ملک میں بگڑتی ہوئی غذائی عدم تحفظ کی صورتحال تشویشناک ہے۔ گندم‘ دودھ اور گوشت جیسی بنیادی اشیائے ضروریہ میں خود کفیل ملک جو کہ چاول‘ آم‘ سنترے وغیرہ کا برآمد کنندہ بھی ہے اور اِس کے ہاں اگر غذائی عدم تحفظ پایا جاتا ہے تو یہ قطعی طور پر معمولی بات نہیں ہے۔ غذائی عدم تحفظ کا تعلق غلط ترجیحات سے ہے۔ توجہ طلب ہے کہ غذائی تحفظ کا مطلب پینے کے صاف پانی‘ صحت کی خدمات اور متوازن غذا جیسے عوامل کے ساتھ سستی قیمتوں پر ہر ایک کے لئے غذائیت سے بھرپور خوراک کی مستقل دستیابی کا مطلب ’غذائی تحفظ‘ ہوتا ہے۔آئین پاکستان کے ’آرٹیکل 38‘ کے تحت ریاست کی آئینی ذمہ داری شہریوں کے لئے خوراک سمیت بنیادی ضروریات کی فراہمی کو لازمی قرار دیتی ہے۔ نئی حکومت کو اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟ سب سے پہلے پاکستان میں غذائی عدم تحفظ کی صورتحال کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ کس طرح معاشی بحران اور شدید موسمی حالات کی وجہ سے ایک زرعی ملک کو غذا کے حصول میں مشکلات درپیش ہیں۔ غذائی تحفظ پر شدید موسمی حالات کے اثرات کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ سال دوہزاربائیس میں سیلاب نے نوے لاکھ افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ کا شکار کیا اِس قدر بڑی تعداد میں وہ لوگ شامل نہیں‘ جو سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں اشیائے خوردونوش کی رسد میں خلل یا سیلاب کے بعد معاشی مواقع کے ضیاع کی وجہ سے غذائی عدم تحفظ محسوس کر رہے ہیں۔ مذکورہ آفات سے پہلے بھی پاکستان میں غذائی تحفظ کی صورتحال پریشان کن تھی جیسا کہ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسیف کے نیشنل نیوٹریشن سروے میں انکشاف اُور تذکرہ کیا گیا تھا۔ سروے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ہر تین میں سے ایک پاکستانی کسی نہ کسی سطح پر غذائی عدم تحفظ کا شکار ہے جبکہ ہر پانچ میں سے ایک کو غذائی قلت کا سامنا ہے۔ اِن خطرناک اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پانچ سال سے کم عمر کے پانچ میں سے دو بچوں کی نشوونما (عمر کے لحاظ سے کم قد) ہے‘ جو درپیش چیلنج کی شدت کو اجاگر کر رہی ہے۔سال دوہزارتیئس میں ’ایف اے او‘ کی حالیہ رپورٹ (اسٹیٹ آف فوڈ سکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ 2023ئ) میں بھی دستیاب غذا سے متعلق برسرزمین صورتحال کی سنگینی کی نشاندہی کی گئی اور جس سے ظاہر ہوا کہ سال دوہزارچودہ سے سولہ کے دوران شدید غذائی عدم تحفظ چودہ فیصد سے بڑھ کر سال دوہزاربیس بائیس کے دوران بیالیس فیصد سے زیادہ ہو گیا۔ یہ غذائی عدم تحفظ میں تین گنا اضافہ تھا اگرچہ جزوی طور پر سال دوہزاربائیس میں کورونا وبا اور سپر فلڈ کی وجہ سے چیلنجز میں اضافہ ہوا تاہم آبادی کے ایک بڑے اور اہم حصے کو حاصل غذائی تحفظ میں کمی آئی۔ اس طرح کے ہنگامی حالات کا اثر اُس وقت زیادہ ہوتا ہے جب گھرانوں کے پاس مالی وسائل محدود ہوتے ہیں اور وہ اپنی ضرورت کے مطابق خوراک نہیں خرید سکتے۔ حالیہ رپورٹ میں ورلڈ فوڈ پروگرام نے پریشان کن رجحان کا انکشاف کیا ہے۔ ایک اوسط پاکستانی اپنی ماہانہ آمدنی کے نصف سے بھی زیادہ کھانے پینے کے اخراجات پر خرچ کر رہا ہے اور ایسی صورت میں اُس کے دیگر ضروریات کے لئے وسائل باقی نہیں رہتے۔ حالیہ برسوں کے دوران پاکستان کی کرنسی (روپے) کی قدر میں کمی ہوئی ہے جس کی وجہ سے عوام کی اکثریت کی قوت خرید میں کمی‘ توانائی کے نرخوں میں اضافے اور مجموعی طور پر زندگی گزارنے کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے۔ یوٹیلٹی بلوں‘ کرائے اور نقل و حمل جیسے غیر ضروری اخراجات پورا کرنے کے لئے‘ بہت سے افراد ہچکچاہٹ کے ساتھ اپنے اخراجات پر سمجھوتہ کرتے ہیں‘ خاص طور پر صحت و تعلیم اور خوراک جیسے اہم ضروریات پر خرچ کرنے کے لئے عوام کی اکثریت کے پاس خاطرخواہ مالی وسائل نہیں ہوتے۔خوراک کے اخراجات پر سمجھوتہ کرنے کا مطلب کم معیار‘ غیر متوازن خوراک ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ مقررہ اخراجات کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے بہت سے لوگوں کو غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اِس سلسلے میں مالی استطاعت کا کم ہونا ایک اور اہم پہلو ہے۔ ’ایف اے او‘ کی مذکورہ رپورٹ میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ بیاسی اعشاریہ آٹھ فیصد آبادی پاکستان میں صحت مند غذا کو برقرار رکھنے کے اخراجات برداشت کرنے سے قاصر ہے جس کا تخمینہ دوہزاراکیس میں یومیہ 3.89 ڈالر فی شخص لگایا گیا تھا۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں پینتیس فیصد سے زیادہ کمی اور سال دوہزاراکیس کے بعد سے عالمی سطح پر اجناس کی قیمتوں میں اضافے نے پاکستانیوں کی اکثریت کے لئے غذائیت سے بھرپور غذا کے حصول کی عدم دستیابی کو مزید بڑھا دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحت مند اور متوازن غذا کا حصول پاکستان کی اکثریتی آبادی کے لئے خواب بن چکا ہے۔اخلاقی تقاضوں سے ہٹ کر غذائی عدم تحفظ اور غذائی قلت کے معاشی نتائج حیران کن ہیں۔ ورلڈ فوڈ پروگرام اور حکومت پاکستان کی جانب سے دوہزارسولہ میں کی گئی ایک تحقیق میں اندازہ لگایا گیا تھا کہ کم غذائیت کے معاشی نتائج سالانہ ساڑھے سات ارب ڈالر ہیں۔ اس حساب کتاب میں بچوں کی اموات کی وجہ سے مستقبل کی افرادی قوت میں کمی‘ بچپن میں نشوونما میں کمی‘ خون اور آیوڈین کی کمی جیسے محرکات شامل ہیں جن کی وجہ سے مستقبل میں بالغوں کی بطور افرادی قوت پیداواری صلاحیتوں میں کمی‘ مائیکرو نیوٹرینٹ کی کمی‘ غیر معیاری دودھ پلانے اور پیدائش کے وقت کم وزن کی وجہ سے صحت کی دیکھ بھال سے متعلقہ اخراجات جیسے عوامل شامل تھے۔
(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلہیری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


 سال دوہزار چودہ سے دوہزارسولہ اُور سال دوہزاربیس سے دوہزاربائیس کے درمیانی عرصے کے دوران پاکستان میں غذائی عدم تحفظ میں تین گنا اضافہ ہوا۔ کیا کوئی بھی حکومت جو پائیدار معاشی بحالی کے حصول کا ارادہ رکھتی ہے وہ اِس غذائی عدم تحفظ کی وجہ سے ہر سال ہونے والے اربوں ڈالر کے نقصانات کو نظر انداز کر سکتی ہے یا اُسے غذائی عدم تحفظ کی صورتحال کو نظرانداز کرنا چاہئے؟ معاشی بحالی پر توجہ مرکوز کرنے کے ساتھ حکومت کو ”جامع فوڈ سکیورٹی پلان“ تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ غذا کی فراہمی کے نازک توازن کو برقرار رکھنا بلاشبہ کسی چیلنج سے کم نہیں ہے۔ معروف دانشور ادیب شیکسپیئر نے کہا تھا کہ ”تاج پہننے کے لئے سر بے چین ہوتا ہے“ لیکن مصمم ارادے کے ساتھ حکمرانی کے ساتھ جڑے جملہ چیلنجز کا بھی خاطرخواہ ادراک و احساس ہونا چاہئے۔