معاشی استحکام

معاشی بحالی اولین ترجیح ہونی چاہئے حالیہ عام انتخابات کے دوران ملک کی سبھی چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے معاشی بحالی کی ضرورت کو محسوس کیا اور اُمید ہے کہ ماضی کے برعکس اِس مرتبہ قومی مالی معاملات کی اصلاح کے لئے خاطرخواہ اصلاحات کی جائیں گی فی الوقت سیاسی جماعتیں حکومت سازی کے بارے میں سوچ رہی ہیں‘ اُن کی ترجیح معیشت نہیں جبکہ پاکستان کی معیشت کو کیسے سنبھالا جا سکتا ہے اِس حوالے سے معاشی ماہرین کی رائے میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے‘ پیش نظر رہے کہ عام انتخابات کے بعد پاکستان کے چیلنجز میں اضافہ ہوا ہے‘اقتدار کی خواہش مند جماعتیں کسی بھی قیمت پر نومنتخب ارکان کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہیں جبکہ ’آئی ایم ایف‘ کی توقعات مختلف ہیں‘ پاکستان میں ممکنہ سیاسی تعطل کے خدشات نے بین الاقوامی بانڈز کی فروخت پر مجبور کیا لیکن یہ بھی مسئلے کا حل ثابت نہیں ہوئی‘ معاشی ناکامیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کی کمی کا خدشہ پیدا ہو چکا ہے۔ فی الوقت پاکستان کو غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور آئندہ ایک ارب ڈالر کے بانڈز کی ادائیگی سمیت بڑے مالی چیلنجز کا سامنا ہے۔ آئی ایم ایف کے ساتھ فنڈنگ پروگرام اپریل دوہزارچوبیس میں ختم ہونے والا ہے‘آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات میں ممکنہ تاخیر کا خطرہ اپنی جگہ موجود ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آنے والی حکومت ملک کو انتہائی ضروری معاشی استحکام فراہم کر پائے گی؟پاکستان کو درپیش بڑے چیلنجوں اور اِن کے ممکنہ حل کا جائزہ لینے سے معلوم ہوتا ہے کہ عالمی بینک کے حالیہ پالیسی نوٹوں کے مطابق پانچ سال سے کم عمر کے چالیس فیصد بچوں کو سست نشوونما جیسے مسئلے کا سامنا ہے۔ پاکستان کے دس سال کے 75فیصد سے زائد بچے ایسے ہیں جو ایک عام سادہ سی تحریر بھی و پڑھنے یا سمجھنے سے قاصر ہیں‘ پاکستان کا ٹیکس ریونیو دیگر ترقی پذیر ممالک کے مقابلے میں کم ہے۔ کسانوں کی بڑی تعداد ٹیکس ادا نہیں کرتی۔ بڑے پیمانے پر نقل مکانی بھی چیلنجنگ ہے اور اعلی ہنر مند پیشہ ور ذہین افراد کی بڑی تعداد بہتر ملازمتی مواقعوں کی تلاش میں ملک چھوڑ رہی ہے۔ یہ تمام مسائل پاکستان کی خوشحالی کے امکانات اور غربت کے خاتمے کی کوششوں میں رکاوٹ ہیں۔ ورلڈ بینک کے سال دوہزارتیئس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح ”اہم مسئلہ“ ہے اور یہ صرف ایک سال میں 34.2 فیصد سے بڑھ کر 39.4 فیصد ہو چکی ہے۔ غربت سادہ نہیں بلکہ پیچیدہ صورت اختیار کر چکی ہے جس کی وجوہات میں معاشی عوامل سرفہرست ہیں جبکہ یہ سماجی‘ سیاسی اور ثقافتی جہتوں کا احاطہ کرتی ہے لہٰذا غربت سے نمٹنے کے لئے معاشی حکمت عملیوں سے بالاتر ہو کر ”جامع نقطہئ نظر“ اپنانے کی ضرورت ہے اور اس کے لئے مربوط اقدامات کرنا ہوں گے۔ اِس کے علاؤہ غربت کے خاتمے کے لئے محض معاشی توسیع کافی نہیں ہو گی۔ غربت میں کمی کی حکمت عملی میں ایسی پالیسیاں شامل ہونی چاہئیں جس سے آمدنی اور اثاثوں کی منصفانہ تقسیم میں اضافہ ہو۔ یہ ہدف مالی فریم ورک بہتر بنانے کے لئے جامع معاشی اصلاحات‘ کم آمدنی والے لوگوں کو فائدہ پہنچانے والے پروگراموں پر عوامی اخراجات میں اضافہ اور مالیاتی منڈیوں تک رسائی کو بہتر بنانے کے اقدامات کے ذریعے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس میں نان فائلرز اور کم ٹیکس والے شعبوں سے زیادہ آمدنی حاصل کرنا اور پبلک فنانشل مینجمنٹ کو بہتر بنانا بھی شامل ہے۔ ان اقدامات سے حکومت کو سماجی اور ترقیاتی اقدامات کے لئے مزید فنڈز مختص کرنے کا موقع ملے گا۔پاکستان میں مہنگائی (افراط زر) کا مسئلہ اپنی جگہ موجود (برقرار) ہے‘ جس سے معاشرے کے کم آمدنی والے طبقات زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کو اِس صورتحال میں افراط زر کی سطح کم کرنے کے لئے ’فعال نقطہ نظر‘ اپنانا ہوگا۔ پاکستان کو بیرونی قرضوں کی واپسی‘ مزید قرضوں سے بچنے‘ زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے اور قومی ترقی کی شرح نمو بڑھانے کے لئے مارکیٹ کے طے شدہ (حقیقی) شرح تبادلہ کو اختیار کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ نے حال ہی میں سرپلس ظاہر کیا ہے جبکہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر نے بھی اپنا توازن برقرار رکھا ہوا ہے تاہم یہ رجحان کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتا ہے جبکہ درآمدات میں اضافہ ہو اور ڈالر کی مانگ زیادہ ہونے لگے۔ آنے والی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ناکافی سرمائے والے مالیاتی اداروں سے نمٹنا اور مالیاتی استحکام برقرار رکھنے کے لئے مالیاتی شعبے پر نظر رکھنا بھی ہوگا۔ پاکستان میں روزگار کے مواقعوں میں اضافہ اور جامع اقتصادی ترقی کے فروغ کے لئے ’بی آئی ایس پی‘ جیسے پروگرام کے ذریعے پسماندہ افراد کو سہارا دینا ہوگا۔ کاروباری ماحول بہتر بنانے اور سرمایہ کاروں کے لئے منصفانہ مسابقت یقینی بنانے کے لئے بھی ضروری اور فوری تبدیلیوں کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عثمان رانا۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
سرکاری اور نجی شعبوں کے درمیان شراکت داری قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ یہ شراکت جدت کے فروغ‘ علاقائی ویلیو چینز کے لئے پیداواری صلاحیت کی تعمیر اور صوبوں کے درمیان مشترکہ سرگرمیوں کو ممکن و آسان بنانے کیلئے ضروری ہیں۔ آخر میں‘ انسانی سرمائے کو بہتر بنانے سے پاکستان کی معاشی بنیادوں کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے اور اِس سے غربت میں کمی بھی آسکتی ہے۔ اِن اہداف کے حصول کے لئے قومی اقتصادی ترقی کے منصوبوں کی تشکیل اور اِن پر عمل درآمد پر توجہ مرکوز کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اگر آنے والی حکومت ماضی کی حکومتوں کی طرح غلطیاں نہ کرے تو معیشت کی بحالی ممکن ہے اور یہی قومی ترجیح ہونی چاہئے۔