معاشی بحالی: مشترکہ کوششیں

پاکستان کو درپیش موجودہ معاشی چیلنجوں سے نمٹنے کے لئے تمام سیاسی حلقوں سے ”متحد نقطہ نظر“ اور ”متحدہ لائحہ عمل“ اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ معیشت کی بحالی تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی سمیت تمام سیاسی جماعتیں چاہتی ہیں تاہم اِس کے لئے اُنہیں ایک دوسرے کے ساتھ شراکت اور عملاً تعاون بھی کرنا ہوگا جبکہ معاشی بحالی صرف اور صرف مشترکہ کوششوں ہی سے ممکن ہو سکتی ہے۔ موجودہ حالات میں مربوط قومی حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے جو سیاسی تقسیم سے بالاتر ہو۔ یہ وقت سیاسی اختلافات بالائے طاق رکھنے کا بھی ہے اور قومی مفاد کے لئے مصالحت کی اشد ضرورت ہے۔ دانشمندی یہی ہے کہ معاشی بحالی جیسے مشترکہ مقصد کو ترجیح بنایا جائے۔تین اہم مسائل پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ 1: اس سال بیرونی فنانسنگ کی ضرورت پچیس ارب ڈالر تک پہنچ گئی ہے۔ 2: گزشتہ ایک سال کے دوران اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ قدرتی گیس کی قیمتوں میں 1108فیصد‘ ٹماٹر کی قیمتوں میں نوے فیصد‘ گندم کا آٹا باسٹھ فیصد‘ چینی کی قیمت میں پچپن فیصد اور دال ماش کی قیمتوں میں سینتیس فیصد اضافہ ہوا ہے اور 3: بجٹ خسارہ آٹھ اعشاریہ دو کھرب روپے جیسی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا ہے۔ یقینی طور پر‘ اِن تین اہم مسائل سے نمٹنے کے لئے فیصلہ کن کاروائی کی ضرورت ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ معاشی مسائل کا حل کسی ایک سیاسی جماعت کے پاس نہیں۔ قومی معاشی بدحالی سچ کا نعرہ لگا رہی ہے۔ جانبدارانہ ایجنڈا صرف مسائل کی سنگینی کو مزید گہرا کر رہا ہے۔ موجودہ بحران مختلف سیاسی منظرنامے میں متنوع نقطہ نظر‘ مہارت اور تجربات سے اجتماعی دانش مندی کا تقاضا کر رہا ہے۔ ہمارے پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (پی ایس ایز) میں خونریزی چل رہی ہے۔ ہمارے نام نہاد پی ایس ایز سالانہ تقریباً سات سو ارب روپے کے اضافی قرضے لیتے ہیں۔ حکومت تقریباً بارہ ارب روپے نام نہاد ’گرانٹس‘ کی شکل میں دیتی ہے۔ یہ تقریباً ڈھائی ہزار ارب روپے کا سالانہ بوجھ ہے۔ ہمیں قومی خزانے پر سالانہ ڈھائی ہزار ارب روپے کے بوجھ کو ختم کرنا ہوگا کیونکہ اب کوئی بھی اس بوجھ کی مالی اعانت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو قومی خزانے کی اِس خون ریزی اور اِس کی سنگینی کو سمجھنا چاہئے اور اپنی کوششوں اور پالیسیوں کو ہم آہنگ کرنا چاہئے جس کے لئے فاسٹ ٹریک نجکاری ہی واحد راستہ ہے۔ مزید برآں بجلی اور گیس کے شعبوں میں نااہلی کے نتیجے میں چھ کھرب روپے کا گردشی قرضہ ہے‘ جو معاشی استحکام کیلئے سنگین خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس خطرے کو کم کرنے اور مزید خرابی روکنے کے لئے فوری اور جامع ڈھانچہ جاتی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ تمام سیاسی حلقوں میں مشترکہ کوششوں کے بغیر گردشی قرضوں سے پیدا ہونے والے چیلنجز ایک سنگین خطرے کے طور پر برقرار رہیں گے۔ معیشت آئی ایم ایف کے بڑے پیکج پر منحصر ہے‘ جس کے ساتھ انتہائی سخت شرائط جڑی ہوئی ہیں۔ ہمیں آئی ایم ایف سے کم از کم چھ ارب ڈالر کے پیکج اور کثیر الجہتی اور دوطرفہ قرض دہندگان سے اربوں ڈالر اضافی قرض کی ضرورت ہوگی۔ آئی ایم ایف پیکج کا انتخاب کبھی بھی آسان نہیں ہوتا۔ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (نواز) اور پیپلز پارٹی کو ماضی کا قیدی نہیں رہنا چاہئے۔ انہیں ماضی کی دشمنیوں کو دفن کرتے ہوئے تصادم کی سیاست سے بھی گریز کرنا چاہئے۔ ملک کے معاشی مسائل کے لئے یقینی طور پر‘ کوئی بھی واحد فریق اکیلے حل نہیں رکھتا۔ ہمیں اپنے توانائی کے شعبوں میں بیرونی فنانسنگ کی ضرورت سے لیکر مشکل گردشی قرضوں تک کے مسائل کا سامنا کرنا ہوگا۔۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


 اب وقت ہے کہ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (نواز)‘ پیپلز پارٹی اور دیگر سیاسی و غیرسیاسی ادارے ماضی کی شکایات کو فراموش کریں اور پاکستان کے بہترین مفاد میں مل جل کر کام کریں 
 انہیں مل کر پاکستان کی معاشی کہانی میں ایک نیا باب رقم کرنا چاہئے۔ معاشی بحالی کے لئے سیاسی اتحاد وقت کی ضرورت ہے۔