جب لوگ غیر قانونی طور پر اور غیر یقینی راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں جسے عام زبان میں غیر قانونی طورپرباہر جانا‘ کہا جاتا ہے‘ تو اِن سفروں اور تارکین وطن کے بارے میں بحث یہ ہوتی ہے کہ آخر کیوں یہ لوگ ہر چیز کو خطرے میں ڈال رہے ہوتے ہیں اور انسانی اسمگلروں (ایجنٹوں) کے ہتھے چڑھ کر بھاری رقم ادا کرنے کے لئے اپنی جان تک گنوانے کی پرواہ نہیں کرتے؟ اگرچہ ’ غیر قانونی طور پر باہر جانا‘ جیسے غیر قانونی تارکین وطن کے ذریعے ملک چھوڑنے والے پاکستانیوں کی صحیح تعداد معلوم نہیں لیکن ایک قابل ذکر تعداد اب بھی ایسی ہے جو غیرقانونی طریقے سے بیرون ملک جانا چاہتی ہے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ یورپ میں غیر قانونی تارکین وطن کی آمد‘ جس میں پاکستانی بھی شامل ہیں‘ میں مسلسل اضافے کا رجحان دیکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر‘ سال دوہزارتیئس میں تقریبا پینتیس لاکھ پناہ گزینوں نے یورپ کی طرف ہجرت کی۔ اسپین میں قابل ذکر اضافہ دیکھا گیا‘ جس میں ایک لاکھ تریسٹھ ہزار پناہ کے متلاشی پہنچے جو گزشتہ تین دہائیوں میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ یورپ رواں سال جس بڑے چیلنج سے نمٹنا چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ پناہ کی درخواستوں میں اکیس اعشاریہ دو فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین نے دوہزارپندرہ سے جو حل نکالا ہے اور جس حل پر کامیابی کے ساتھ عمل درآمد کیا ہے وہ پناہ گزینوں کی آف شورنگ ہے اگرچہ یورپ میں حکام اسے مہاجرت کے انتظام کی مو¿ثر حکمت عملی کے طور پر پیش کرتے ہیں لیکن ایسا نہیں ہے۔ پناہ گزینوں کی آف شورنگ کی واحد اور حقیقی کامیابی‘ جیسا کہ اعداد و شمار سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ تارکین وطن کے لئے دنیا کے مختلف حصوں سے یورپ میں داخل ہونا مشکل اور ممکنہ طور پر زیادہ خطرناک بنادیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر بحیرہ¿ روم کے خطے سے یورپ کی طرف غیر قانونی ہجرت اب آسان نہیں رہی۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ یورپ فوج کے ذریعے اپنے ساحلوں کی حفاظت کر رہا ہے جن کے ذریعے تارکین وطن کو یورپ میں آنے سے روکا جاتا ہے۔ یورپ کو دیگر ممالک میں کوسٹ گارڈز کی مالی اعانت کا یہ راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے کیونکہ بین الاقوامی قانون کے مطابق وہ پناہ گزینوں کو جنگ زدہ ممالک میں واپس نہیں بھیج سکتے جہاں ان کی زندگیوں کو خطرات ہوتے ہیں۔ لیبیا جیسے ممالک میں ساحلی محافظوں کو سہولت کاری فراہم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ یورپ غیر قانونی تارکین وطن کے سفر کو انتہائی غیر یقینی بنا رہا ہے اور اِس کے نتیجے میں تارکین وطن پھنس جاتے ہیں اور آخر کار ان کی موت ہو جاتی ہے۔سال دوہزارسترہ میں اٹلی نے لیبیا کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دستخط کئے تھے جس میں لیبیا کے کوسٹ گارڈکے ساتھ مل کر غیر قانونی تارکین وطن کی آمد کو روکنے پر اتفاق کیا گیا تھا۔ یورپی یونین نے اگلے چند سالوں میں کوسٹ گارڈز کو تربیت اور سازوسامان سے لیس کرنے کے لئے تقریباً ایک کروڑ یورو کی رقم کا وعدہ بھی کیا۔ لیبیا سے اٹلی کا سفر کرنے والے اسے ’موت کا سفر‘ قرار دیتے ہیں۔ گزشتہ برسوں کے دوران لیبیا کے ساحلی محافظوں کی جانب سے پکڑے جانے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے جیسا کہ بحیرہ¿ روم کا سفر کرنے کی کوشش کرنے والوں کی ہلاکتوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا ہے‘ جہاں سال دوہزاربیس میں پانچ فیصد اضافہ ہوا اور یہ بھی ایک محتاط اندازہ ہے۔ سال دوہزاربیس میں پوپ فرانسس نے لیبیا کے تارکین وطن کے حراستی مراکز کا موازنہ نازی حراستی کیمپوں سے کیا تھا۔ یونانی روٹ پر بھاری پولیسنگ کی وجہ سے حالیہ برسوں میں لیبیا کا روٹ پاکستانی غیر قانونی تارکین وطن اور ایجنٹوں میں تیزی سے مقبول ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیرون ملک غیر مستحکم مستقبل کے لئے ایک مستحکم گھر (اپنے ملک پاکستان کو) کیوں چھوڑ دیا جائے؟ زندگی کسی بھی چیز سے زیادہ قیمتی ہے اور گھر کی زندگی چاہے معاشی طور پر کتنی ہی غیر یقینی کا شکار ہو لیکن غلط اقدام اُٹھانے کے مقابلے میں بہتر ہے اِس میں کم سے کم زندگی کی ضمانت تو ہے۔ غیر قانونی تارکین وطن کو جو موقع ملتا ہے وہ ایک مستحکم گھر اور گھر کے مستحکم مستقبل کے درمیان کا نہیں بلکہ یہ اپنے ہی آپ میں ڈوبنے جیسا ہے۔ قرض میں ڈوبنا‘ چھوٹے بہن بھائیوں اور بچوں کی ذمہ داریاں‘ عمر رسیدہ والدین کی مالی دیکھ بھال‘ خاندانی جھگڑے جو وراثت میں ملتے ہیں اور یہ سب اُنہیں غیر مستحکم پانیوں میں بیرون ملک ڈوبنے کےلئے تیار کر دیتے ہیں۔ گھر چھوڑنے والے مردوں اور نوجوان لڑکوں کو اپنے گھر میں موجود غربت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ چکر اتنا خطرناک ہے کہ جب تک کوئی جسمانی طور پر اِس سے نہیں نکلتا تو اس سے نجات ناممکن لگتی ہے۔ سفر کے ممکنہ نتائج کے لحاظ سے‘ موت کی قبولیت کسی بھی صورت دانشمندی نہیں۔ ایسی کئی کہانیاں ہیں جن میں غیرقانونی راستوں سے بیرون ملک جانے والوں نے سرمایہ اور زندگی ہار دی۔ ایسی موت یقیناً بدترین ہے۔ حراست‘ اغوا‘ جبری مزدوری اور غلامی میں ڈوب کر کچھ بننے سے بہتر ہے کہ زندگی کے حقیقی سفر کے خدوخال کو تشکیل دیا جائے اور بیرون ملک غیر یقینی صورتحال کا سامنا کرنے کی بجائے اپنے گھر‘ اپنے وطن‘ اپنی مٹی پر محنت کے ذریعے ایک نئی زندگی تشکیل دی جائے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر نور شہزاد۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام