بھارت : انسانی حقوق اور اعلیٰ عدلیہ

بھارت کی جیل میں قید انسانی حقوق کے کارکن عمر خالد نے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کو دی ہوئی اپنی ضمانت کی درخواست واپس لے لی تھی اور اس کے بجائے نچلی عدالتوں میں اپنی قسمت آزمانے کو ترجیح دی۔ اُن کے اِس غیرمعمولی اقدام کے ساتھ عدلیہ کے بارے میں ایک مضحکہ خیز بیان بھی جاری ہوا۔ بھارت میں انصاف حاصل کرنا معمول کی بات نہیں رہی بلکہ یہ سرکاری خدمت حاصل کےلئے ایک اور لمبی قطار میں شامل ہونے کے مترادف عمل ہوسکتا ہے جس کے بعد ایک قطار سے دوسری قطار میں جانے جیسا بے سود انتظار کرنا پڑ سکتا ہے عمر کے والد نے کہا کہ وکلا¿ کا ماننا ہے کہ نچلی عدالتوں سے انصاف حاصل کرنے کے امکانات زیادہ ہیں اور انہیں لگتا ہے کہ حالیہ دنوں میں کچھ ’بہتری‘ بھی آئی ہے‘ستمبر دوہزاربیس میں دہشت گردی کے غیر ثابت شدہ الزامات پر عمر خالد کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ کے ججوں کے سامنے بے شمار التوا¿ کا سامنا کرنا پڑا اور عمر خالد کو جیل میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے‘ تاحال استغاثہ (بھارتی حکومت) نے ایسا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جس سے یہ ثابت ہو سکے کہ عمر خالد نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ¿ بھارت کے دوران کسی کو بھی سڑک پر تشدد کرنے کی ترغیب دی تھی۔ حکومت کے حامی ٹی وی چینلز‘ جو ہمیشہ ریاست کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں‘ نے عمر خالد پر بھارت کی کشمیر پالیسی پر تنقید کرتے ہوئے کئی بار پاکستان کا دورہ کرنے کا الزام بھی لگایا ہے اینکرز کو جب یہ بتایا گیا کہ عمر خالد کے پاس پاسپورٹ نہیں اور جب انہیں رہا کیا جائے گا تب بھی وہ پاسپورٹ کے لئے درخواست دینے کا ارادہ نہیں رکھتے‘ تب بھی الزام لگانے والوں کو رتی برابر شرمندگی نہیں ہوئی۔نوم چومسکی کی قیادت میں بھارتی و بیرون ملک دانشوروں‘ ماہرین تعلیم اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد نے مودی حکومت سے درخواست کی ہے کہ وہ ’جے این یو‘ سے ’پی ایچ ڈی‘ حاصل کرنے والے اس طالب علم کارکن (عمر خالد) کو رہا کرے ‘عمر خالد کی جانب سے سپریم کورٹ سے ضمانت کی درخواست واپس لینے سے بھارتی عدلیہ کی سبکی ہوئی ہے۔ مغربی بنگال کی ایک ہائی کورٹ نے شیر اور شیرنی کو اکبر اور سیتا کہنے پر اعتراض کرنے والی فرقہ وارانہ بنیادوں پر دائر عرضی کو سماعت کے لئے قبول کیا ہے۔ بھارتی جیلوں میں زیر سماعت قیدیوں کی غیر معمولی تعداد اور معاشرے کے نچلے طبقے کے شہریوں کے ساتھ روزانہ کی ناانصافیوں کی دیگر اشکال کو دیکھتے ہوئے عدالتوں کی ترجیحات کا احساس کیا جا سکتا ہے جو واقعی حیران کن ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ کو یہ بات یقینی بنانے کے لئے اقدام کرنے چاہیئں کہ بھارتی ریاست اور حکومت کی طرف سے اس کی اپنی رٹ کا احترام کیا جائے۔ دریں اثنا سپریم کورٹ میں حزب اختلاف کے وزیر اعلیٰ کو گرفتار کر لیا گیا جو کمزور اور مسلسل استحصال کا شکار قبائلیوں کی نمائندگی کرتے ہیں لیکن انہیں ضمانت نہیں دی گئی۔ اِس تناظر میں ایک حاضر سروس وزیر اعلیٰ کی گرفتاری غیر معمولی ہے کیونکہ سپریم کورٹ نے ان کی بات سننے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسری جانب حکومت نواز ٹی وی کے ایک صحافی کو سپریم کورٹ سے ضمانت مل گئی۔ ایک اور جج کو اس عرضی پر سماعت کرنے کا وقت مل گیا‘ جس نے گجرات میں عصمت دری اور قتل کے مجرم ہندوتوا لوگوں کی قبل از وقت رہائی کی راہ ہموار کی جبکہ اس سے پہلے ایک اور جج نے ضمانت منسوخ کر دی تھی۔ حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے ساتھ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے مستقبل پر مہر لگا دی تھی‘ جس کے بارے میں وکلا کا کہنا ہے کہ اس سے دیگر ریاستوں کے وفاقی حقوق کو بھی خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔سال دوہزارسترہ میں بھارت کی اعلیٰ ترین عدالت نے سیاسی امیدواروں کے مذہب‘ ذات پات یا زبان کی بنیاد پر انتخاب لڑنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ غیر ملکی میڈیا نے اسے تاریخی فیصلہ قرار دیا تھا جس کے ہندوستانی سیاست پر دور رس اثرات مرتب ہوسکتے ہیں حالانکہ سپریم کورٹ نے ایک منقسم فیصلہ سنایا تھا کہ بھارت کا آئین عقیدے پر آزادانہ عمل کرنے کی اجازت دیتا ہے لیکن ”عام انتخابات جیسی سیکولر سرگرمیوں میں مذہب اور مذہبی عقائد کی مداخلت نہیں ہونی چاہئے۔“ کیا بھگوان رام کے نام پر ووٹ مانگنا سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہے یا نہیں؟ عدالت نے کہا تھا کہ شناخت کی سیاست کی بنیاد پر ووٹ مانگ کر جیتے گئے عام انتخابات کو بدعنوانی پر مبنی عمل سمجھا جا سکتا ہے اور نتائج کالعدم قرار دیئے جا سکتے ہیں۔ اختلافی فیصلے میں اکثریتی ججوں پر ’قانون کی حد سے تجاوز اور عدالتی مسودہ تیار کرنے‘ کا الزام عائد کیا تھا۔ ججوں کے درمیان ہونے والے ذاتی جھگڑے میں‘ قانونی فیصلوں کی تشکیل اور ان پر عمل درآمد اکثر ایک لاٹری کی طرح نظر آتا ہے۔ جمہوریت کے لئے اور بڑھتی ہوئی غلط ریاست کی سازشوں کے انفرادی متاثرین کے لئے یہ مایوس کن صورتحال ہے۔ اعلیٰ عدالتوں سے انصاف نہ ملنے کی توقع اور عدالتوں کا جانبدارانہ رویہ صرف عمر خالد ہی کے لئے نہیں بلکہ بہت سے باصلاحیت اور ممکنہ طور پر بے گناہ ماہرین تعلیم‘ صحافیوں اور عام بھارتیوں کے لئے بھی ناقابل یقین حد تک مایوس کن ہے۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر جواد نقوی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)