بنیادی تعلیم : احیا (ازسرنو ترتیب)

پاکستان میں تعلیم کی سنگین صورت حال کے بارے میں سیاسی اختلافات کے باوجود بھی اس کی ضرورت کے حوالے سے ’اتفاق رائے‘ پایا جاتا ہے۔ چاہے وہ ابتدائی تعلیم ہو یا ثانوی‘ درس و تدریس کے نظام کی خامیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ پاکستان میں 2 کروڑ (بیس ملین) بچے تعلیمی اداروں سے باہر ہیں‘ یہ تعداد سکول جانے والی عمر کے کل بچوں کا چالیس فیصد ہے۔ اس کے علاوہ تقریباً دو کروڑ (بیس ملین) ایسے بچے بھی ہیں جو سرکاری شعبے کے سکولوں یا کم معیار کے نجی سکولوں سے استفادہ کرتے ہیں‘ جہاں درس و تدریس کا عمل اور نتائج تسلی بخش نہیں۔ پاکستان میں خواندگی کی شرح 58فیصد ہے جبکہ بھارت میں یہ شرح 78فیصد اور بنگلہ دیش میں 75فیصد ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے آئین میں آرٹیکل ”پچیس اے“ شامل کرنے کے باوجود صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔ مذکورہ ترمیم کے ذریعے پانچ سے پندرہ سال کی عمر کے تمام شہریوں کو لازمی مفت تعلیم فراہم کرنا ریاست کی آئینی ذمہ داری تھی‘ تاہم پاکستان اپنی یہ ذمہ داری تاحال پوری نہیں کر پایا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم کی گلوبل ہیومن کیپٹل رپورٹ 2017ءکے مطابق تعلیم اور ہنرمندی کے حوالے سے پاکستان 130ممالک میں 125 ویں نمبر پر ہے۔ اٹھارویں ترمیم کے ذریعے صوبوں کو زیادہ مالی بااختیار بنانے اور ساتویں نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے ذریعے آمدنی کے بڑے وسائل کی صوبوں کو منتقلی کے باوجود تعلیمی 
نظام میں خاطرخواہ کامیابیاں حاصل نہیں کی جا سکی ہیں جبکہ دنیا کے دیگر ممالک اکیسویں صدی میں مصنوعی ذہانت کے دور میں چوتھے صنعتی انقلاب کی طرف بڑھ رہے ہیں اور پاکستان اب بھی اس بات کیلئے جدوجہد کر رہا ہے کہ اس کے ہاں ہر بچہ سکول جائے اور تعلیم حاصل کرے۔ پاکستان نے کئی عالمی وعدے بھی کر رکھے ہیں جن میں سال دوہزارتیس تک تعلیم سے متعلق اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی نامی 17 اہداف شامل ہیں اور ان میں ’ہدف نمبر چار‘ معیاری تعلیم سے متعلق ہے جبکہ ہدف نمبر ایک غربت کے خاتمے‘ ہدف نمبر دو بھوک کا خاتمہ اور ہدف نمبر تین صحت عامہ کی بہتری سے متعلق ہے۔ موجودہ سرکاری سکولوں کا نظام جو وفاقی اور چار صوبائی حکومتوں کے ذریعہ تقریباً ایک لاکھ پندرہ ہزار سے زیادہ سکولوں پر مشتمل ہے‘ غیر مو¿ثر ثابت ہوا ہے‘ جس کی بڑی وجہ پبلک سیکٹر گورننس میں بامعنی اصلاحات لانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ ہے۔ انتظامی اور مالی اختیارات وفاقی اور صوبائی دارالحکومتوں میں مرکوز ہیں‘ جس کی وجہ سے فیصلہ سازی منقطع ہے۔ سیاسی تقرریاں اتھارٹی کے عہدوں پر حاوی ہیں‘ بیوروکریٹس تعلیم سے طویل مدتی وابستگی سے محروم ہیں‘ جو پائیدار ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ گورننس بیوروکریٹک ریڈ ٹیپ‘ فرسودہ دستی مواصلاتی طریقوں اور احتساب کے مکمل فقدان کی وجہ سے متاثر ہے۔ غیر مو¿ثر مواصلاتی نظام کے ساتھ مل کر مرکزی فیصلہ سازی کا عمل جدت طرازی اور پالیسی کے نفاذ کو روکے ہوئے ہے۔ بجٹ سازی اور فنڈز کے اجرا¿ کا موجودہ فرسودہ نظام‘ جس کا کارکردگی یا نتائج سے کوئی تعلق نہیں‘ کے نتیجے میں وسائل کا بہت بڑا ضیاع ہوتا ہے۔ احتساب کا ایسا کوئی نظام نہیں‘ جس کے تحت سیاسی قیادت اور بیوروکریٹس کو خراب نتائج یا معقول اہداف حاصل نہ ہوں۔ کئی تعلیمی پالیسیاں اور منصوبے بنائے گئے ہیں لیکن نتائج شاذ و نادر ہی اہداف سے مطابقت رکھتے ہیں اور کارکردگی نہ دکھانے کے باوجود‘ کبھی کسی کو جوابدہ نہیں ٹھہرایا جاتا۔ تعلیم حق ہے اور اسے عالمگیر سطح پر ”حق“ تسلیم کیا گیا ہے‘ جس میں خاطرخواہ کامیابی یعنی مثبت تبدیلی لانے کیلئے ’انسانی سرمائے‘ کے معیار میں نمایاں بہتری لانا ہو گی‘ جو ملک کا سب سے اہم اثاثہ ہے۔ حالیہ عام انتخابات کے بعد تشکیل پانے والی نئی وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو جامع و مربوط تعلیمی حکمت عملی تشکیل دینا ہوگی جس کیلئے ’چارٹر آف ایجوکیشن‘ کا ہونا پہلی ضرورت ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کا اعلان کیا جائے۔ تعلیم کیلئے ترجیحی بنیادوں پر مالی وسائل فراہم کئے جائیں۔ 
سرکاری تعلیمی اداروں کے نتائج بہتر بنانے پر توجہ مرکوز کی جائے اور تعلیم کے حوالے سے سیاسی جماعتوں کے درمیان قومی اتفاق رائے قائم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ اس سے تعلیم کو قومی ترجیح کے طور پر بلند کرنے کے عزم کی نشاندہی ہوگی‘ تعلیم کیلئے مختص کو جی ڈی پی کے کم سے کم پانچ فیصد تک بڑھایا جانا چاہئے۔ پانچ سالوں میں تعلیم کیلئے مختص بجٹ کو موجودہ دو فیصد سے بڑھا کر جی ڈی پی کا پانچ فیصد کرنے کے بعد اس میں ہر سال اور مسلسل اضافہ ایک ایسی ضرورت ہے جس سے کسی کو انکار نہیں ہے۔ تعلیم کیلئے پبلک پرائیویٹ فنڈنگ پر عملدرآمد ہونا چاہئے۔ تجویز ہے کہ بنیادی تعلیم میں تمام تر توسیع پنجاب ایجوکیشن فاو¿نڈیشن اور سندھ ایجوکیشن فاو¿نڈیشن جیسے کامیاب پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ ماڈلز کی طرز پر ہونی چاہئے جس کے بہتر نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ ان ماڈلز کا بنیادی تصور ’مضبوط مانیٹرنگ میکانزم‘ ہے جو معیاری تعلیم کی فراہمی یقینی بنا رہا ہے۔ لہٰذا سرمایہ کاری تعلیم سے حاصل ہونے والے نتائج میں کی جائے اور غیرترقیاتی اخراجات میں کمی لائی جائے۔ اکیسویں صدی میں قومی ترقی کیلئے بنیادی تعلیم کو بہتر سے بہتر بنانا ناگزیر ہے جس کیلئے جرات مندانہ اصلاحات اپناکر اور درس و تدریس کے نتائج کو ترجیح بنا کر پاکستان شعبہ¿ تعلیم سے متعلق عالمی اہداف کے حصول اور اپنے انسانی وسائل کے معیار کو بہتر بنانے کی راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر سید اسد علی شاہ۔ ترجمہ ابوالحسن امام)