حکومت سازی کےلئے سیاسی جماعتوں کے درمیان اِتفاق رائے خوش آئند ہے کہ اِس سے ملک میں سیاسی استحکام آئے گا اور ملک جو ایک بحران کے بعد دوسرے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے تو اِس سے بحرانوں پر قابو حاصل کرنے کا بھی امکان ہے جس سے کسی بھی حکومت کےلئے مشکل حالات کی موجودہ لہر پر قابو پانا انتہائی مشکل ہو جائے گا‘ اسلام آباد میں قائم تھنک ٹینک ادارے کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم لیگ (نواز)کی قیادت والی حکومت کو پہلا بڑا بحران جس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے وہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ ہے۔ قومی واجبات کا پہاڑ ایک ایسا بحران ہے جس کے حجم میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے‘68 صفحات پر مشتمل مذکورہ تشویشناک رپورٹ اٹھارہ فروری کو جاری ہوئی‘اسکے مطابق ملک کے مجموعی قرضے اور واجبات بشمول داخلی اور بیرونی قرضوں کا مجموعی حجم 77.66کھرب روپے (271.2ارب ڈالر)ہیں‘ مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کا بیرونی قرض بنیادی طور پر قرض دہندگان سے لیا جاتا ہے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا فی کس قرضہ سال دوہزارگیارہ میں 823 ڈالر فی کس سے بڑھ کر 2023میں 1122ڈالر فی کس ہو گیا ہے جو بارہ سال میں مجموعی طور پر چھتیس فیصد اضافہ ہے‘ رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ملک کا قرض اس کی آمدنی کے مقابلے میں تیز رفتاری سے بڑھ رہا ہے جس سے مالی خسارے میں اضافہ ہو رہا ہے اور اِس صورتحال سے فوری طور پر نمٹنے کےلئے مزید قرض لینے کی ضرورت ہے‘ رپورٹ کے مطابق سال دوہزار گیارہ کے بعد سے پاکستان کے بیرونی قرضوں میں تقریباً دوگنا جبکہ داخلی قرضوں میں چھ گنا اضافہ ہوا ہے جس میں سے ملک کو ایک اندازے کے مطابق انچاس اعشاریہ پچاس ارب ڈالر قرض کی ادائیگی کرنا ہوگی جو تیس فیصد سود ہے‘ یہ سنگین معاشی صورتحال حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور دیگر قرض دہندگان سے رجوع کرنے پر مجبور کرے گی جو کسی بھی مالی امداد یا قرض کی پیش کش کےلئے سخت شرائط مقرر کریں گے جس کا مطلب ہے کہ حکومت کو قیمتوں میں اضافے کے علاو ہ مزید سبسڈی واپس لینا ہوگی جو اب بھی معاشرے کے کچھ طبقوں کو دی جارہی ہے۔ حکومت کی جانب سے زرعی ٹیکس لگانے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان کا بوجھ بڑھانے کا بھی امکان ہے۔ اس طرح کے اقدامات تنخواہ دار طبقے کی مشکلات میں اضافہ کریں گے جو پہلے ہی بڑھتی ہوئی افراط زر (مہنگائی)اور ٹیکسوں کے بارے میں شکایت کر رہے ہیں۔ اس سے مسلم لیگ ن کی زیر قیادت حکومت کو مزید غیر مقبول اقدامات کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے‘ اتحادی رعایتیں حاصل کئے بغیر اس طرح کے اقدامات کی حمایت نہیں کریں گے‘ جس سے حکومتی استحکام پر سوالیہ نشان لگ سکتا ہے۔ امکان ہے کہ پیپلز پارٹی غیر مقبول معاشی فیصلوں سے خود کو دور رکھے گی جبکہ مسلم لیگ ن چاہے گی کہ پیپلزپارٹی بھی مزید مہنگائی کرنے کی ذمہ داری میں شریک ہو جس سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والے چھ کروڑ سے زائد افراد متاثر ہوں گے۔ اس طرح کی نیو لبرل اصلاحات اپوزیشن کو حکومت کے خلاف بیان بازی کرنے کا موقع فراہم کرسکتی ہےں۔ جماعت اسلامی اور ناراض جمعیت علمائے اسلام (فضل الرحمن) اس صورتحال میں مسیحا بننے کی کوشش کر سکتی ہے اور مہنگائی کے خلاف احتجاج کی راہ اختیار کر سکتی ہے جس سے سیاسی عدم استحکام پیدا ہوگا لہٰذا خوفناک معاشی حالات کے سوا چارہ نہیں ہے جس سے سیاسی بحران جنم لے گا چونکہ ہماری حکمران اشرافیہ غیر ملکی دوروں پر بے تحاشا خرچ کرنے کا شوق رکھتی ہے اس لئے مستقبل کی حکومت اس سے مستثنیٰ نہیں ہوگی۔ پی ڈی ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کے دوران نہ صرف سابق وزیراعظم شہباز شریف اور سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے مختصر عرصے میں ریکارڈ دورے کئے بلکہ دیگر وفاقی وزراء نے بھی ہر عالمی کانفرنس میں شرکت کو اپنا قومی فرض سمجھا۔ معاشی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے نئی حکومت کا حجم کم رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ سال دوہزارآٹھ کے بعد سے تمام سیاسی جماعتیں مزید ڈویژنز اور وزارتیں تشکیل دے رہی ہیں جس سے قومی خزانے پر بوجھ بڑھ رہا ہے۔ پاکستان کے طرزحکمرانی کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ غیرپیداواری اخراجات میں کمی نہیں کی جا سکتی جبکہ قرضوں کی ادائیگی کی جانی چاہئے اور آزاد پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز)کے مطالبات کو بغیر کسی ہنگامہ آرائی کے قبول کیا جانا چاہئے لہٰذا حکومت کے پاس سکڑتے ہوئے سماجی شعبے پر کفایت شعاری کی تلوار دبانے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہے گا۔ حکومت ممکنہ طور پر ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرے گی اور وفاقی اکائیوں کے حصے کو تبدیل کیا جائے گا جس سے وفاقی اخراجات کم کرنے میں مدد ملے گی۔ وفاقی حکومت صوبوں کی ادائیگی میں تاخیر کی بھی کوشش کرے گی جس سے صوبوں میں سماجی شعبے کی ترقی بھی متاثر ہوگی۔ اِسی طرح صوبائی حکومتیں بھی اسلام آباد کے پاور کوریڈور میں بیٹھ کر وفاقی احکامات کی پیروی کریں گی اور کچھ ہی عرصے میں بیوروکریٹس اور صوبائی وزراء مشیروں کے لئے لگژری گاڑیوں کی درآمد کے بارے میں سنا جائے گا۔ ایک مرتبہ پھر دیکھا جائے گا کہ نئے وزرا پرانی گاڑیوں میں شہر کے گرد چکر لگانے کو اپنی توہین سمجھیں گے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عبدالستار۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)
ان کے دفاتر کو فوری تزئین و آرائش کی بھی ضرورت ہوگی جو ان کی سماجی حیثیت سے مطابقت رکھتی ہو۔ یہ سب ایک سماجی بحران کو جنم دے سکتا ہے۔ سبسڈی کی واپسی لوگوں کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر سکتی ہے جیسا کہ ہم نے حال ہی میں گلگت بلتستان میں دیکھا ہے ‘جہاں حکومت نے گندم کی سبسڈی کو ختم کرنے کی کوشش کی جو وہ دہائیوں سے اِس علاقے کے لوگوں کو دے رہی تھی۔ سماجی شعبے کے بجٹ میں کٹوتی سے ایک ایسے ملک پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے جہاں دوہزاربائیس کے سیلاب کے بعد بھی لاکھوں افراد بے گھر ہیں۔ ملک کا ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس پہلے ہی ناقص ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق پاکستان کی ساڑھے بیس فیصد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔ نیشنل نیوٹریشن سروے (این این ایس)دوہزارآٹھ (پاکستان)اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ تولیدی عمر کی خواتین میں میکرو اور مائیکرو نیوٹرینٹس کی کمی خطرناک ہے۔ پاکستان کی چودہ اعشاریہ چار فیصد کم وزن چوبیس فیصد زیادہ وزن اور 13.8 فیصد موٹاپے کا شکار تھے‘ خون کی کمی(ہیموگلوبن (ایچ بی کی سطح بہت زیادہ 41.7 فیصدتھی۔ یونیسیف کے مطابق پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے دس میں سے چار بچے (چالیس اعشاریہ دو فیصد) نشوونما کی کمی کا شکار ہیں جبکہ 17.7فیصد ضائع ہونے کا شکار ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے غذائی قلت کا دوہرا بوجھ تیزی سے واضح ہوتا جا رہا ہے تقریباً تین میں سے ایک بچے کا وزن کم (اٹھائیس اعشاریہ نو فیصد)ہے۔ یہ ان ہزاروں سکولوں ہسپتالوں اور بنیادی صحت کے یونٹوں کے علاو ہ ہے جو برسوں سے مناسب سہولیات سے محروم ہیں۔ ملک میں ایک کمزور انفراسٹرکچر بھی ہے جس میں کسی بھی بہتری کو دیکھنے سے پہلے اربوں ڈالر کی ضرورت ہے۔ اس کو دیکھتے ہوئے اِس بات کا امکان ہے کہ ملک بحران کے بعد ایک بحران کی طرف جاتا رہے گا۔ صرف عوام دوست نقطہ نظر ہی ملک کو اس طرح کے بے شمار بحرانوں سے چھٹکارا دلا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔