سماجی اِنصاف کے عالمی دن کے موقع پر تحفظ ماحول کے حوالے سے بحث و مباحثے اُن کوششوں کا تسلسل ہیں جو کرہ¿ ارض کے قدرتی تنوع کو برقرار رکھنے کے لئے کی جا رہی ہیں۔ انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) نے دس جون2008ءکو منصفانہ گلوبلائزیشن کے لئے سماجی انصاف سے متعلق آئی ایل او اعلامیہ منظور کیا اور ترقی کے مساوی مواقع اور انصاف کے حصول کو کسی قوم کی خوشحالی کے لئے اہم ستون بھی قرار دیا۔ آب و ہوا کی تبدیلی ’عالمی چیلنج‘ ہے جس کی وجہ سے متعدد مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ اِسی کی وجہ سے سماجی و اقتصادی اور جغرافیائی ساختی عدم مساوات دیکھنے میں آ رہی ہے جبکہ آب و ہوا کے بحران کی وجہ سے ہونے والی سماجی ناانصافی عالمی اقتصادی ماڈل کے استحصال پر مبنی ہے اُور اِس کی وجہ سے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر موجودہ عدم مساوات مزید گہری دکھائی دے رہی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی صنعتی انقلاب کا نتیجہ ہے جس کی وجہ سے معاشی ترقی اور خوشحالی کے غیر پائیدار نمونوں کو اپنایا گیا ہے۔ اس انقلاب سے مستفید ہونے والے ممالک گلوبل نارتھ کے چند ممالک تھے جو امیر بن گئے۔ وہ اب بھی گلوبل ساو¿تھ کے غریب ممالک کی آب و ہوا خراب کر کے عالمی اقتصادی نظام سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ’یو این ڈی پی‘ کے مطابق عالمی سطح پر‘ سب سے زیادہ کاربن اخراج والے دس فیصد گھرانوں کا چونتیس سے پینتالیس فیصد حصہ نچلے طبقے سے ہے۔ خلاصہ¿ کلام یہ ہے کہ ’آب و ہوا کی تبدیلی‘ غریب ممالک پر منفی اثر ڈال رہی ہے جن کا عالمی کاربن اخراج میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ مثال کے طور پر کاربن کے اخراج میں پاکستان کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے لیکن جرمن واچ نے اسے موسمیاتی آفات کے خطرے والے سرفہرست ممالک میں سے ایک قرار دیا ہے۔ گزشتہ پانچ برس میں پاکستان میں آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی بہت سی آفات جیسا کہ سال دوہزاربائیس میں سیلاب‘ ہیٹ ویو‘ سموگ اور گلیشیئرز جھیل پھٹنے کا سیلاب (جی ایل او ایف) شامل ہیں۔ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق مندرجہ ذیل آٹھ ممالک موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کی وجہ سے شدید غذائی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ اِن میں جنوبی سوڈان‘ مڈغاسکر‘ پاکستان‘ صومالیہ‘ سوڈان‘ چاڈ‘ ساحل (ایک خطہ جو بحر اوقیانوس سے بحیرہ احمر تک پھیلا ہوا ہے اور اس میں برکینا فاسو‘ نائجر اُور ڈرائی کوریڈور (وسطی امریکہ کا ایک خطہ) شامل ہیں۔ یہ تمام ممالک غریب ہیں اور غذائی عدم تحفظ جیسے چیلنجز ان کے معاشی حالات کو مزید خراب کرنے کا باعث بن رہے ہیں اور ان ممالک میں سماجی بدامنی دیکھی جا رہی ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفات نے خواتین‘ بچوں‘ معذور افراد‘ ٹرانس جینڈروں اور معمر افراد جیسے کمزور گروہوں کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی آفات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مالی بحرانوں کے دوران‘ خواتین اور لڑکیاں تناو¿ کی وجہ سے گھریلو تشدد کا شکار ہو جاتی ہیں۔ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف جرائم میں بھی کئی گنا اضافہ ہوتا ہے۔ تباہ شدہ صحت کے بنیادی ڈھانچے اُور امدادی کوششوں میں انسانی وسائل کے استعمال کی وجہ سے آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی آفات کے دوران خواتین کو صحت کی مناسب سہولیات نہیں ملتیں۔ ایمرجنسی کے دوران معذور اور عمر رسیدہ افراد کو نکالنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ ان کی مخصوص ضروریات اور دیکھ بھال کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ مزید برآں‘ مقامی برادریاں جن کا پالیسی سازی اور فیصلہ سازی کے عمل میں کم کردار ہوتا ہے وہ موسمیاتی تبدیلی کے شدید اثرات کا سامنا کرتی ہیں کیونکہ وہ اپنی روزی روٹی کے لئے زیادہ تر قدرتی وسائل پر انحصار کر رہی ہوتی ہیں جیسا کہ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے بھی نوٹ کیا ہے کہ ”اُبھرتے ہوئے شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ شمالی امریکہ‘ یورپ‘ لاطینی امریکہ‘ افریقہ‘ ایشیا اور بحرالکاہل کے 37 کروڑ (تین سو ستر ملین) سے زیادہ مقامی لوگوں کے ذریعہ معاش اور ثقافتی شناخت پہلے ہی خطرے میں ہیں۔ آب و ہوا کی وجہ سے آنے والی آفات غریبوں کو اور بھی غریب بنا دیتی ہیں اور وہ غربت کے شیطانی چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر‘ آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی آفات کی وجہ سے پیدا ہونے والے مالی بحران کی وجہ سے‘ غریب اب اپنے بچوں کو سکول بھیجنے کے متحمل نہیں ہو رہے لہٰذا‘ اپنے بچوں کو بہتر روزگار حاصل کرنے کے لئے تعلیم دینے کا ایک موقع بھی ضائع ہو جاتا ہے اور وہ مزید غربت کے جال میں پھنس جاتے ہیں جبکہ امیر لوگوں کے پاس عام طور پر اس طرح کی آفات کا مقابلہ کرنے کے لئے متعدد شکلوں میں آمدنی اور بچت کے ذرائع ہوتے ہیں اور وہ مالی نقصانات برداشت کرسکتے ہیں۔ ڈی کاربنائزیشن کی حکمت عملی کسی ملک کے غریب طبقے کو بھی بُری طرح متاثر کر سکتی ہے۔ ٹرانسپورٹ کمپنیاں کاربن ٹیکس کی لاگت کی وصولی کے لئے اپنے کرایوں میں اضافہ کریں گی۔ بہت سے ممالک اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے موسمیاتی تبدیلی کی آفات کا سامنا کر رہے ہیں۔ پاکستان‘ بھارت اور نیپال جیسے جنوبی ایشیائی ممالک دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلوں سے ملحق ہیں۔ یہ جغرافیائی محل وقوع انہیں سیلاب کی وجہ سے گلیشیئر پگھلنے کے خطرے سے دوچار کرتا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی ممالک کے اندر اور ممالک کے درمیان پہلے سے موجود سماجی‘ اقتصادی اور سیاسی عدم مساوات کو بھی گہرا کر رہی ہے جس سے سماجی انصاف اور مساوات کے لئے سنگین خدشات جنم لے رہے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام