ہم کتنے محفوظ ہیں؟

حفاظت کسی بھی شخص کے بنیادی حقوق میں سے ایک ہے اور اِسے ممکن بنانا حکومت کا کام ہے۔ ہر شخص کا گھر اُس کے لئے سب سے زیادہ ’محفوظ مقام‘ سمجھا جاتا ہے جہاں وہ بغیر کسی خوف کے زندگی بسر کر سکتا ہے اور گھر کی حفاظت یا اِسے باسہولت بنانے کے لئے وہ جدید ترین آلات (ٹیک ڈیوائسز) کا استعمال بھی کرسکتا ہے تاکہ اُسے حفاظت و سہولت کا زیادہ سے زیادہ احساس رہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ حال ہی میں ہوئے گیلپ سروے کے مطابق جس میں پاکستان کے طول و عرض سے قریب ایک ہزار افراد کی رائے معلوم کو شامل کیا گیا سے معلوم ہوا ہے کہ اکتالیس فیصد پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ ”پاکستان ایک دہائی پہلے جس قدر محفوظ ہوتا تھا اُس کے مقابلے میں آج زیادہ غیر محفوظ ہے“ تقریباً اُنتالیس فیصد لوگوں نے اِس رائے (خیال) کا بھی اظہار کیا ہے کہ پاکستان ہر دن پہلے سے زیادہ غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے اور پندرہ فیصد پاکستانیوں کے لئے ملک میں امن و امان کے حالات کی صورتحال جوں کی توں ابتر ہے اور اِس میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ اِس سروے رپورٹ کے جاری ہونے کے بعد ذرائع ابلاغ اور عوامی سطح پر اِس سے متعلق بحث و مباحثہ دیکھنے میں نہیں آیا جیسے یہ بات کوئی خبر ہی نہ ہو کہ ’پاکستان تیزی سے غیر محفوظ معاشرہ بنتا جا رہا ہے‘ کسی معاشرے کے رہنے والوں کو جب تک حفاظت کا احساس نہیں ہوگا اُس وقت اُس معاشرے میں تعمیری سوچ اور ترقی جیسی خوبیاں بھی پروان نہیں چڑھیں گی۔ سیاسی عدم استحکام‘ روزگار کے مواقعوں کی کمی اور غیر یقینی کی مسلسل فضا نے بہت سے لوگوں کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے اور وہ اپنے مستقبل سے متعلق غیریقینی کا شکار ہیں! زیادہ تر لوگوں کے لئے‘ ملک میں ’سکیورٹی کی کمی‘ پریشانی کا باعث ہے اور وہ نہ صرف اپنے آپ بلکہ اپنے اہل و عیال کی سلامتی کے لئے بھی فکرمند ہیں۔ سال دوہزارچودہ میں پاکستان میں دہشت گردی کے اعصاب شکن واقعات پیش آئے۔ اُس سال دسمبر میں سانحہ آرمی پبلک سکول پیش آیا جس کے نتیجے میں سو سے زیادہ بچے ہلاک ہوئے تھے۔ اس کے بعد حکومت نے ملک سے دہشت گرد گروہوں کو ختم کرنے کا عہد کیا اور ایک دہشت گردی کے انسداد کے لئے ایک قومی حکمت عملی وضع کی گئی جس پر عمل درآمد کے لئے تمام سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے پایا گیا۔ سال دوہزارپندرہ تک قانون نافذ کرنے والے ادارے کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب رہے جس کے نتیجے میں سال دوہزاراُنیس تک سکیورٹی کی صورتحال بڑی حد تک قابو میں رہی تاہم سال دوہزار بیس سے ملک بھر میں دہشت گردی کے واقعات نے تباہی مچا رکھی ہے اور سال دوہزاراکیس میں (کابل سے امریکی افواج کے انخلا) کے بعد سے دہشت گردی میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ اس صورتحال نے ایک بار پھر معاشرے میں افراتفری اور بدامنی پیدا کر رکھی ہے اور مزید برآں شہروں میں جرائم کی شرح میں بھی بتدریج اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں میں عدم اطمینان اور مایوسی پھیلی ہوئی ہے۔ مختلف سروے سے پتہ چلا ہے کہ پاکستان میں نوجوان معیاری تعلیم اور بہتر معاشی مستقبل چاہتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر عبید ظفر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)

 بحیرہ¿ روم میں کشتی الٹنے جیسے واقعات بھی پاکستانیوں کی ملک چھوڑنے کی مایوسی کو ظاہر کرتے ہیں۔ پیشہ ور افراد اپنے کاروبار کو ملک سے باہر منتقل کر رہے ہیں جن کے لئے معمول کی زندگی گزارنے کے لئے لبرل جمہوریتوں کا انتخاب ہی واحد صورت رہ گئی ہے۔ عوام کے اِن جذبات اور برسرزمین حقائق کو نظر انداز کرنے سے بہتری نہیں آئے گی۔ فیصلہ ساز اگر اِس حقیقت سے بے خبر ہیں تو یہ بے خبری اپنی جگہ المیہ ہے۔ دہشت گردی‘ جرائم‘ بیروزگاری‘ مہنگائی‘ اور مستقبل سے متعلق غیریقینی سے دوچار ایک مایوس قوم کسی بھی صورت ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کر سکتی۔ پاکستانی ہر لحاظ سے باصلاحیت ہیں اور پاکستانی نوجوانوں کو موقع دیا جائے تو یہ اپنی ذہانت اور اہلیت سے اُن سبھی چیلنجوں کا حل پیش کر سکتے ہیں جو ملک کو درپیش ہیں۔ بنیادی ضرورت ملک کے بڑے شہروں کی طرح چھوٹے شہروں میں بھی تعلیم و صحت اور امن و امان جیسی بنیادی سہولیات کی فراہمی ہے تاکہ عوام روزگار اور دیگر معاشی فوائد کی تلاش میں بڑے شہروں کا رخ کرنے پر مجبور نہ ہوں۔ شہروں کی طرف نقل مکانی کی وجہ سے شہری سہولیات کے نظام پر بوجھ میں مزید اضافہ ہوتا ہے جس سے شہری آبادی مسائل کا شکار ہوتی ہے۔ فیصلہ سازوں کو شہری ترقی ڈیزائن کرتے ہوئے مستقبل کی ضروریات کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے۔ شہروں میں روزگار کے مواقعوں کی پہلے ہی کمی ہے اور اب پہلے سے زیادہ سنگین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مناسب وقت ہے کہ فیصلہ ساز عوام کو درپیش مسائل و مشکلات کے ساتھ اُن خدشات کا بھی جائزہ لیں جن کی موجودگی میں پاکستان ’خوشحال‘ اور ’ترقی یافتہ‘ نہیں بن سکتا اور اِس کے لئے امن و ترقی کا پیغام عام کرتے ہوئے اُمید دلانی چاہئے تاکہ مایوسی و پریشانی کے ماحول کا خاتمہ ہو۔