معاشی استحکام: صائب مشورے


اسلام آباد کے انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز میں پاکستانی معیشت کے استحکام کے موضوع پر اقتصادی امور کے ماہر معین افضل کی تقریر میں ایک رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ ”پاکستان ناگزیر حد تک دیوالیہ (ڈیفالٹ) ہونے کی طرف بڑھ رہا ہے۔“ پاکستان کا بیرونی قرضہ ایک سو چوبیس ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے اور اس کا داخلی قرضہ بھی ایک سو چالیس ارب ڈالر ہے جس سے مجموعی قومی قرضہ 270ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ اِس قدر بڑی رقم پاکستان میں ہر مرد‘ عورت اور بچے کے حساب سے فی کس ایک لاکھ ڈالر سے زیادہ بنتی ہے۔ ’قرضوں کا جال‘ یا ’موت کا جال‘ ایک ہی بات ہے گویا پاکستان کی نوے فیصد آبادی کو دس فیصد معاشی خوشحال حکمرانوں نے عمر قید کی سزا دے رکھی ہے۔ معین افضل نے بتایا کہ اُن سے عموماً تین سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا پاکستان اس قرضے کو ادا کر سکتا ہے؟ دوسرا کیا چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) قابل عمل تھا؟ اور تیسرا یہ کہ کیا معاشی ماہرین قرضوں کے مسئلے کا کوئی قابل عمل حل رکھتے ہیں؟ اس کے جواب میں اُنہوں نے کہا کہ قرض ایک بیماری کی طرح ہے اور اس کا علاج اس کی شدت اور مریض کے تعاون پر منحصر ہے۔ اسی طرح سی پیک کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ یہ قابل عمل ہے بشرطیکہ قرضوں کا بہتر استعمال کیا جائے اور ادائیگی کی ذمہ داریوں اور صلاحیت کو مدنظر رکھا جائے۔ جہاں تک معاشی ماہرین کا تعلق ہے تو انہوں نے کہا کہ پبلک فنانس کو تعلیمی مہارت سے زیادہ عملی عام فہم کی ضرورت ہوتی ہے حالانکہ اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ معیشت کو مستحکم کرنے کا انحصار میکرو صورتحال کی حالت پر ہوتا ہے۔ پاکستان کی سالانہ ساٹھ ارب ڈالر سے زائد کی درآمدات ہیں جو اِس کی کل برآمدات سے دوگنی ہیں۔ اس خلا کو کم و بیش ترسیلات زر سے پورا کیا جاتا ہے‘ جب تک تجارتی خسارے کو قابو میں رکھا جائے گا‘ روپیہ مستحکم رہے گااور افراط زر پر قابو پایا جا سکتا ہے اور معاشی ترقی کی رفتار برقرار رکھی جا سکتی ہے۔ بصورت دیگر زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوتے جائیں گے تاہم طویل مدت تک ترقی کو برقرار رکھنے کے لئے‘ بچوں اور صحت کی دیکھ بھال‘ تعلیم بشمول پیشہ ورانہ تعلیم‘ آبادی میں اضافہ‘ بنیادی ڈھانچے کی ترقی‘ ملازمت کے تحفظ‘ زندگی گزارنے کی اجرت‘  بدعنوانی میں کمی وغیرہ سمیت سماجی شعبوں کو بہت زیادہ توجہ اور ترجیح کی ضرورت ہوگی۔ بدقسمتی سے فوجی‘ انتظامیہ اور قرضوں کی ادائیگی کے اخراجات کی وجہ سے اِن ترجیحات کے لئے بہت کم بجٹ کی گنجائش ہے۔ آئی ایم ایف کے قرض کے ذریعے طویل مدتی گھریلو اور غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری ممکن ہے جو ترقی کی شرح کے لئے ضروری ہے لیکن اس کے لئے سیاسی استحکام ناگزیر ہے۔ معین افضل نے دو ماہرین معاشیات کا ذکر کیا جن کی تحریروں نے بنیادی طور پر ترقیاتی معاشیات کو نئی سوچ دی ہے۔ ان میں سے ایک تھامس پکیٹی ہیں۔ ان کے مطابق پہلی جنگ عظیم سے قبل امریکہ‘ برطانیہ‘ فرانس اور سویڈن جیسے ترقی یافتہ ممالک کی ٹیکس آمدنی کبھی بھی جی ڈی پی کے آٹھ سے دس فیصد سے زیادہ نہیں تھی کیونکہ سرکاری اخراجات زیادہ تر پولیس‘ عدالتوں‘ عدلیہ‘ فوج اور کچھ بنیادی ڈھانچے کے لئے تھے۔ ابتدائی صنعتی سرمایہ دارانہ نظام کی حکمرانی کی ترجیحات نے بڑے پیمانے پر جاگیردارانہ مفادات کا تحفظ کیا۔ پہلی جنگ عظیم (اور روسی انقلاب) کے بعد ہی حکومتی پالیسیوں کو غربت کا اِحساس ہوا۔ امریکی خانہ جنگی اور فرانکو پروشیا جنگ سے لے کر پہلی اور دوسری جنگ عظیم (1870ء سے 1950ء) تک جدید جنگ کی ہولناکیوں کے مشترکہ تجربے نے سیاست کی طبقاتی بنیاد کو متاثر کیا۔ نتیجتاً سابق فوجیوں اور ان کے خاندانوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے ٹیکس محصولات میں تین سے چار گنا اضافہ کیا گیا۔ دوسری جنگ عظیم اور سرد جنگ کے آغاز کے بعد‘ روسی کمیونزم کی اپیل کو چیلنج کرنے کے لئے حکمرانی کے اہم اصول کے طور پر سماجی بہبود کا تصور سامنے آیا۔ ترقی یافتہ صنعتی ممالک میں ٹیکس محصولات ڈرامائی طور پر جی ڈی پی کے پچاس فیصد سے زیادہ بڑھ گئے۔ شدید عدم مساوات کے نتائج سے نمٹنے کی ضرورت کے بارے میں آگاہی نے مغربی جمہوریتوں کی سیاست کو آگاہ کیا‘ چاہے وہ ترقی پسند مزدور نواز یا قدامت پسند کاروباری جماعتوں کی حکمرانی ہو تاہم پکیٹی نے ’جنوبی ایشیائی مسئلے‘ کا ذکر کیا جس کے مطابق بھارت اور پاکستان جیسے غریب پسماندہ اور گنجان آباد ممالک میں ٹیکس محصولات جی ڈی پی کے پندرہ سے بیس فیصد تک رہے۔ سوشلسٹ یا قوم پرست بیان بازی کے باوجود‘ سیاست دانوں اور بیوروکریٹس نے ممکنہ طور پر غربت کو اتنی بھاری حقیقت سمجھا کہ اسے صرف حل نہیں کیا جا سکتا تھا۔ معین نے جس دوسرے ماہر معاشیات کا ذکر کیا وہ اسٹیفن ڈرکون تھے۔ انہوں نے پاکستان کا دورہ کیا اور مشاہدہ کیا کہ پبلک فنانس میں سرکاری مہارت کی کوئی ضرورت نہیں‘ جس کے لئے بنیادی طور پر دانشمندانہ فیصلہ سازی کی ضرورت ہے۔ معین نے کپاس اور چاول کی خریداری کی قیمتوں کی مثالیں پیش کیں جو مارکیٹ کی قیمتوں سے زیادہ تھیں جن کا کوئی مطلب نہیں تھا کیونکہ اس طرح سے عوامی وسائل کو ضائع کیا گیا اور صارفین کے لئے اجناس کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح گیس‘ پیٹرولیم اور بجلی کی اصل قیمتوں سے کم قیمت وصول کی گئی جس سے گردشی قرضوں میں اضافہ ہوا جو اب ایک عفریت بن چکا ہے۔ معیشت کی بہتری سیاسی استحکام کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ حالیہ عام انتخابات نے اس حقیقت کو قومی توجہ کا مرکز بنایا ہے جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا کیونکہ پاکستان کے عوام اب محسوس کرتے ہیں کہ ان کا ملک ایک بڑا بلوچستان بن گیا ہے۔ اہل اور مخلص سیاست دانوں کو عوام کی بہتر خدمت کے لئے معین افضل جیسے لوگوں کے دانشمندانہ مشوروں سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔ (مضمون نگار امریکہ بھارت اور چین میں بطور سفیر پاکستان کی نمائندگی جبکہ سوڈان اور عراق میں اقوام متحدہ مشنز کی قیادت کر چکے ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اشرف جہانگیر قاضی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)