آب و ہوا کی تبدیلی سے جنم لینے والی آفات جیسا کہ سیلاب اور زلزلے‘ مالی طور پر کمزور طبقات بالخصوص غربت زدہ افراد کو زیادہ شدت سے متاثر کرتے ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کے خطرے کے انڈیکس 2024ءکے مطابق پاکستان کی اس طرح کی آفات کیلئے ہائی رسک ملک کے طور پر درجہ بندی کی گئی ہے۔ یہ درجہ بندی موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات کے بارے میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی حساسیت کی نشاندہی بھی کرتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی متعدد قدرتی آفات کا سامنا کر چکا ہے‘ جن میں سال دوہزارپانچ کا تباہ کن زلزلہ اور سال دوہزاردس اور دوہزار بائیس کے سیلاب شامل ہیں۔ اِن چند واقعات کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر سماجی‘ اقتصادی اور بنیادی ڈھانچے کے نقصانات ہوئے‘ جس سے پہلے سے ہی پسماندہ برادریوں کو درپیش چیلنجوں میں اضافہ ہوا ہے۔ مذکورہ آفات کے نتیجے میں غربت میں مزید اضافہ ہوا ہے جس سے متاثرہ آبادیاں پہلے سے زیادہ مالی طور پر کمزور ہوئی ہیں۔ قدرتی آفت کسی کمیونٹی کے کام کاج میں خلل ہوتا ہے جو اس کے لچک سے تجاوز کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ قدرتی آفات لوگوں کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں لیکن غیر پائیدار ترقیاتی طرز زندگی کی وجہ سے رکاوٹیں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اِن طریقوں میں پہاڑوں کے ماحولیاتی نظام کا مسلسل حد سے زیادہ استحصال‘ دریاو¿ں کے کنارے تجاوزات‘ دریاو¿ں کے قدرتی بہاو¿ میں مصنوعی طریقے سے تبدیلیاں اور دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں میں بے ترتیب تعمیرات شامل ہیں۔ 2022ءمیں تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ دریائے سندھ یعنی انڈس ریور سسٹم کی سیلاب کو برداشت کرنے کی صلاحیت میں نمایاں طور پر کمی ہوئی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ اس سال سیلاب کی وجہ سے تین کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے اور مجموعی طور پر چالیس ارب ڈالر سے زیادہ کا معاشی نقصان ہوا۔ سیلاب نے ملک کا ایک تہائی حصہ غرق کر دیا اور تقریباً 80 لاکھ افراد بے گھر ہوئے۔ سیلاب نے سات ہزار ایک افراد کو ہلاک کیا‘ بیس لاکھ گھر تباہ جبکہ 9 لاکھ سے زیادہ مویشی ہلاک ہوئے۔ سندھ سیلاب سے زیادہ متاثرہ صوبہ ہے جہاں مجموعی نقصانات کا ستر فیصد کے قریب ہے‘ اس کے بعد
بلوچستان‘ خیبر پختونخوا اور پنجاب کا نمبر آتا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے درپیش بڑے مسائل میں نقل مکانی‘ غذائی عدم تحفظ‘ ذریعہ معاش کا نقصان اور پانی سے پیدا ہونے والی بیماریاں اور غذائی قلت جیسے خطرات شامل ہیں۔ پوسٹ ڈیزاسٹر نیڈ اسسمنٹ رپورٹ 2022ءکے ابتدائی تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2022ءکے سیلاب کے نتیجے میں قومی غربت کی شرح میں 3.7 سے 4 فیصد پوائنٹس کا اضافہ ہوا‘ جس سے کم و بیش 84 لاکھ سے 91 لاکھ افراد غربت میں چلے گئے۔ سال دوہزاردس میں مون سون بارشوں کی وجہ سے سیلاب آیا جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر تباہی دیکھی گئی۔ فیڈرل فلڈ کمیشن رپورٹ 2010ءکے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ سال دوہزاردس کے سیلاب نے مجموعی طور پر دس بلین ڈالر کا مالی نقصان پہنچایا اور اِس سے قریب دوہزار ہلاکتیں ہوئیں ساڑھے سترہ ہزار سے زیادہ دیہات تباہ ہوئے اور ملک کا ایک لاکھ ساٹھ ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ سیلاب سے متاثر ہوا۔ مذکورہ سیلاب سات لاکھ سے زائد مکانات بھی تباہ ہوئے اور تقریباً 436 صحت کی سہولیات کو نقصان پہنچا۔ گنے‘ دھان اور کپاس جیسی اہم فصلوں کے مجموعی پیداواری نقصانات کا تخمینہ 13.3 ملین میٹرک ٹن لگایا گیا تھا۔ خاص طور پر پنجاب اور سندھ میں ساٹھ سے اٹھاسی فیصد کسان گھرانوں نے چاول‘ سبزی‘ کپاس‘ چینی اور چارے جیسی اہم فصلوں کی مد میں ہوئے پچاس فیصد سے زیادہ کے نقصانات کی اطلاع دی۔ 2022ءاور 2010ءکے تباہ کن سیلاب سے نمٹنے کی پیشگی تیاری نہیں تھی۔ مختلف حکومتی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان سامنے آیا جس کی وجہ سے ہنگامی ردعمل کا خاطرخواہ تیزی سے مظاہرہ نہ کیا جا سکا۔ امدادی اداروں کے پاس امداد کیلئے ناکافی رسد‘ مواصلات کی کمی اور
بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصانات جیسے چیلنجوں سے نمٹنے کیلئے وسائل نہیں تھے۔ یہ مسائل بدستور موجود ہیں اور سرکاری اداروں کے درمیان ہنگامی حالات کی صورت بہتر ہم آہنگی اور تیاری کی ضرورت کو اجاگر کر رہے ہیں۔ بین الایجنسی اور بین الاقوامی تعاون سمیت مختلف سطحوں پر رابطہ کاری سے جڑے مسائل بھی اپنی جگہ موجود ہیں۔ سال دوہزاربائیس کے سیلاب کے ردعمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادری کا ردعمل کم رہا اور قرضوں پر انحصار کرنیوالی پاکستانی معیشت کو درپیش چیلنجز میں اضافہ ہوا۔ آب و ہوا سے متعلق آفات اور وسیع تر معاشی مسائل کے یکجا ہونے کی وجہ سے پاکستان کیلئے ماحولیاتی خطرات میں اضافہ ہوا ہے‘ جس سے نکلنے اور بچنے کیلئے جامع حکمت عملی وضع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ ماضی کی آفات سے سیکھنے‘ ردعمل کے میکانزم میں خلا کا اندازہ لگانے‘ چیلنجوں کا نقشہ بنانے اور اِن کا عملی مقابلہ کرنے کی حکمت ِعملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ قومی سطح پر مرکزی کوآرڈی نیشن میکانزم ترقیاتی و امدادی سرگرمیوں کی مو¿ثر منصوبہ بندی کے طور پر کام کرتا ہے۔ پاکستان کو تکنیکی طور پر متحرک‘ مستقبل کی سوچ اور قدرتی آفات کے خطرے میں کمی (ڈی آر آر) فریم ورک کی طرف منتقل ہونے کی ضرورت ہے۔ نظر ثانی شدہ ایمرجنسی مینجمنٹ پیراڈائم قدرتی آفات کی بدلتی ہوئی نوعیت کو مو¿ثر طریقے سے کم کرسکتا ہے اور اِس سے کم آمدنی والے طبقات کی حفاظت ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے شمال سے لیکر جنوب تک کے متنوع جغرافیائی علاقوں کو دیکھتے ہوئے‘ قدرتی بحران سے نمٹنے کیلئے حکمت عملی ایک جیسی ہونی چاہئے جس میں حکومتی اداروں کا فوری ردعمل بھی شامل ہونا چاہئے۔ مقامی برادریاں کسی بھی طرح کی قدرتی و دیگر آفات کا سب سے پہلے شکار ہوتی ہیں لہٰذا زیادہ سے زیادہ متحرک اور فوری حرکت میں آنے والا امدادی فریم ورک یقینی بنانے کیلئے مقامی برادریوں کو شامل کرنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان میں مختلف ٹولز‘ ایپس اور موسم کی پیش گوئی کا نظام موجود ہے تاہم معلومات کے زیادہ مستند اور قابل اعتماد ذرائع کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر علی رحمت شمشالی۔ رمشا محبوب خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)