نوجوان پاکستان : حقیقی قوت

اس بات سے قطع نظر کہ حالیہ عام انتخابات کے نتائج کس حد تک منصفانہ اور عوام کے لئے کس حد تک قابل قبول ہیں لیکن نوجوان ووٹرز نے اِس مرتبہ زیادہ تعداد میں اپنا حق رائے دہی کا استعمال کیا ہے جبکہ تجزیہ کار انتخابات سے قبل ہی اِسے روایتی اور غیرروایتی نظریات کے درمیان مقابلہ قرار دے رہے تھے۔ پاکستان کے زیادہ تر حصوں میں نوجوانوں نے یک آواز ہو کر جو رائے دی اگر اُسے سمجھ لیا جاتا ہے تو اِس سے پاکستان کی قومی ترجیحات کا تعین کرنے میں آسانی رہے گی اگرچہ نوجوانوں کے ووٹوں سے منتخب ہونے والوں کی حتمی سیٹوں کی عکاسی نہیں ہوئی لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ نوجوانوں کے ووٹ کی وجہ سے بہت سے انتخابی تجزیات غلط ثابت ہوئے ہیں اور سیاسی جماعتوں کو جس کامیابی کی توقع تھی وہ حاصل نہیں ہو سکی ہے۔ایک ایسے نئے پاکستان میں خوش آمدید جہاں نوجوانوں کی سوچ مربوط ہے اور قومی مسائل کے حوالے سے یہ اتفاق رائے صرف ملک کے شہری مراکز تک محدود نہیں بلکہ دیہی علاقوں سے بھی اِس مرتبہ ووٹروں کے مختلف قسم کے رجحانات سامنے آئے ہیں جو درحقیقت عوام کی ’حقیقی قوت‘ کی عکاسی کر رہے ہیں شاید حالیہ انتخابات کا سب سے اہم سبق بھی یہی ہے کہ کراچی سے پشاور تک انتخابات اور سیاست کو کاروبار بنانے والوں سے چھٹکارا حاصل کیا جائے۔ وقت ہے کہ نوجوانوں کے مسائل پر توجہ دی جائے اور اُن کی آواز کو زیادہ توجہ سے سنا جائے۔ پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہر سال نوجوان ووٹرز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ آبادی کے اِس اضافے کو روکا نہیں جا سکتا اور نہ ہی اِس حقیقت کو تبدیل کیا جا سکتا ہے کہ نوجوان اپنی الگ رائے رکھتے ہیں اور اُن کی رائے میں ہیرا پھیری سے ماسوائے بے چینی کے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ معروف ماہر تعلیم پروفیسر عادل نجم کے مطابق پاکستان کے مستقبل کا فیصلہ پندرہ سے اُنتیس سال کی عمر کے نوجوان کر رہے ہیں جن کی رائے اب سے لے کر 2048ءتک کے عام انتخابات پر حاوی رہے گی۔ملک میں نوجوانوں کی آبادی کا یہ تناسب غیرمعمولی ہے۔ فی الوقت پاکستان میں ہر تین میں سے دو افراد کی عمر تیس سال سے کم ہے۔ یہ کہنا درست ہے کہ عام انتخابات میں کسی بھی ووٹر کو استثنیٰ نہیں ہوتا بلکہ یہ اپنے ساتھ ایسا رجحان لاتا ہے جس کی جھلک ہر سیاسی مقابلے میں نظر آتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں عام انتخابات کا فیصلہ جن رائے دہندگان کی پسند و ناپسند پر ہوتا ہے اُن کی سوچ اور ترجیحات کے بارے میں رائے یکساں اہم ہوتی ہے۔اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ پاکستان میں زیادہ تر نوجوان آبادی ہے اور اس آبادی کی عکاسی انتخابی نتائج سے ہو رہی ہے۔ اس سے نوجوانوں اور ریاست کے درمیان موجودہ تعلق کے بارے میں سوچنے کا وقت ہے۔ کیا ریاست کراچی سے خیبر تک گورننس اور انتظامی فیصلہ سازی میں نوجوانوں کی نمائندگی کو یقینی بنا رہی ہے اگر نہیں تو اِس حوالے سے بھی کمی بیشی کا جائزہ لیا جانا چاہئے۔پاکستان میں طلبہ یونینوں پر پابندی عائد ہے۔ سیاسی اشرافیہ کے ارکان سیاسی جماعتوں اور قانون ساز اسمبلیوں میں نوجوانوں اور خواتین کے کوٹے کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دے رہے۔ زیادہ تر وفاقی اور صوبائی وزارتیں ساٹھ سال کی عمر سے زائد لوگ چلاتے ہیں جبکہ آبادی کے تناسب کے لحاظ سے دیکھا جائے تو حکومت نوجوانوں کے ہاتھ میں ہونی چاہئے جو اپنے فیصلوں میں ترقی کا منفرد نکتہ¿ نظر رکھتے ہیں۔ عام انتخابات کے بعد سوشل میڈیا پر نوجوان ایک طرح کی مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ملک کی سیاست ایک دوسرے کی مخالفت کی بجائے تعمیروترقی اور مستقبل کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کی جائے۔یہ بات بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آئی کہ ووٹرز اُمیدواروں کی تلاش کر رہے تھے جن کی آزاد حیثیت ہونے کی وجہ سے الگ الگ انتخابی نشانات تھے اور اِس مقصد کے لئے پاکستان کی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ سوشل میڈیا اور سمارٹ کہلانے والی انفارمیشن ٹیکنالوجیز کا استعمال کیا گیا‘ جس کی کامیابی نے ثابت کیا ہے کہ پاکستان الیکٹرانک ووٹنگ کی طرف بڑھ رہا ہے اور وہ دن اب زیادہ دور نہیں جب روایتی طریقوں کی بجائے الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے حق رائے کا اظہار کیا جائے گا۔روایتی اور الیکٹرانک ووٹنگ کے درمیان فرق یہ ہے کہ روایتی طریقے پر اُٹھنے والی لاگت ہر انتخاب میں پچاس ارب روپے سے زائد ہوتی ہے جبکہ الیکٹرانک ووٹنگ میں ایک مرتبہ سرمایہ کاری کرنے کے بعد کم سے کم پچاس سال میں ہونے والے درجنوں قومی و بلدیاتی اور ضمنی انتخابات کروائے جا سکیں گے۔ فیصلہ سازوں کو سوچنا چاہئے کہ صرف انتخابات کا انعقاد ہی نہیں بلکہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی کو مدنظر رکھتے ہوئے ووٹنگ کے طریقہ¿ کار میں بھی اصلاحات لائی جائیں اور الیکٹرانک ووٹنگ میں خاطرخواہ سرمایہ کاری کی جائے۔ اس بات پر زور دیا جا سکتا ہے کہ وفاق‘ پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ماضی کی حکومتوں نے نوجوانوں کو بااختیار بنانے کے حوالے سے جس کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اُس میں بہتری کی گنجائش موجود ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے۔ کوئی سمجھے یا نہ سمجھے لیکن ”پاکستان بدل چکا ہے“ ملک میں ٹیکنالوجی کا استعمال پہلے سے زیادہ ہو رہا ہے اور اِس مرحلے پر نوجوان چاہتے ہیں کہ ووٹ کے ذریعے منتخب ہونے والے صرف ظاہری تبدیلی ہی نہیں بلکہ حکومتی پالیسیوں میں بھی تبدیلیاں لائیں اور وقت و حالات کے بدلتے ہوئے تقاضوں کو سمجھیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عباد خان۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)


حالیہ عام انتخابات کے نتائج سب کے لئے سبق آموز ہیں۔ نوجوانوں نے اپنی رائے اور مطالبات کا اظہار کر دیا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ معاشی استحکام کے ساتھ تعلیم و تحقیق کے شعبوں کے لئے زیادہ قومی وسائل مختص کئے جائیں۔