موسیقی کے بارے میں سوچتے ہوئے ذہن میں فنکاروں کے براہ راست کنسرٹس آتے ہیں۔ براہ راست کنسرٹ نہ صرف کسی گلوکار یا فنکار کی آمدنی اور مشہوری کیلئے اہم ہوتے ہیں بلکہ اِس کے ذریعے انہیں اپنے فن کی بہتری کا بھی موقع ملتا ہے تاہم موسیقی کی بہتری کیلئے صرف براہ راست کنسرٹ ہی واحد ذریعہ نہیں ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ جب کسی فنکار کا گانا ریڈیو پروگراموں یا کیفے‘ ہوٹلوں یا دیگر پبلک مقامات پر بجایا جاتا ہے‘ تو یہ بھی موسیقی کی عوامی شکل ہوتی ہے۔ اِس سلسلے میں موسیقی کی تشہیر کرنے والے فنکاروں کو رائلٹی کی مد میں ادائیگی کرتے ہیں۔ یہ عالمی سطح پر رائج طریقہ ہے اور موسیقی کے ذریعے کسی بھی صورت فن کا مظاہرہ کرنے والے رائلٹی کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے ہیں تاہم پاکستان میں فن کاروں اور گلوکاروں کو ان کی محنت کا خاطرخواہ معاوضہ نہیں ملتا اور موسیقی بجانے والے اس سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے سے بھی قاصر رہتے ہیں جو ممکنہ طور پر ان کی آمدنی کا ذریعہ ہو سکتی ہے لیکن وہ اِس سے محروم رہتے ہیں۔ موسیقار اس بات کو یقینی بنا سکتا ہے کہ وہ اپنی موسیقی کے عوض رائلٹی طلب کرے اور اِس مقصد کے لئے باقاعدہ معاہدے کئے جائیں تاہم ایسا صرف محدود پیمانے پر ہوتا ہے کیونکہ کسی ایک شہر میں موسیقی تخلیق کرنے والے کو علم نہیں ہوتا کہ اس کی موسیقی اندرون یا بیرون ملک کس کس شہر میں بجائی جا رہی ہے‘ اِس مقصد کیلئے فنکاروں اور موسیقاروں کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لئے ایک ادارہ قائم
ہے جس کا نام ”پرفارمنگ رائٹس سوسائٹی (پی آر ایس)“ ہے۔ یہ سوسائٹی اِس بات کو یقینی بناتی ہے کہ پاکستان میں کوئی بھی ادارہ رائلٹی فراہم کئے بغیر میوزک کا استعمال نہ کرے۔ ’پی آر ایس‘ نامی ادارہ کاپی رائٹ ہولڈرز کو رائلٹی حاصل کرنے اور اِن کے حقوق کے تحفظ میں مدد فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کے ’کاپی رائٹ آرڈیننس 1962ئ‘ رائج ہے اور اِسی کے تحت ’پی آر ایس‘ کام کرتی ہے جو پاکستان میں کام کرنے اور موسیقی بطور کاروبار اختیار کرنے والوں کو لائسنس (اجازت نامے) جاری کرتی ہے‘ اِس مقصد کے لئے فیس جمع کرنے اور رائلٹی کی تقسیم بھی کی جاتی ہے۔ پاکستان میں کلیکٹیو آرگنائزیشن فار میوزک رائٹس اِن پاکستان (گارنٹی) لمیٹڈ (سی ایم پی) حکومت کی جانب سے منظور شدہ ’پی آر ایس‘ ہے۔ اس کا وسیع دائرہ اختیار ہے اور یہ صارفین کو بھی موسیقی کے استعمال کے لائسنس جاری کرتا ہے جس سے ہونے والی آمدنی بطور رائلٹی جمع فنکاروں اور موسیقاروں میں تقسیم کی جاتی ہے۔ اصولاً کاروباری اداروں کو ’سی ایم پی‘ کے ذریعے قانونی طور پر موسیقی کے حقوق حاصل کرنے چاہیئں تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ میوزک اسٹریمنگ سروسز ذاتی اور غیر تجارتی استعمال کے لئے الگ الگ ہیں۔ مثال کے طور پر اسپاٹائف نامی ایپ کے ذریعے موسیقی کی تشہیر یا استعمال کی شرائط مختلف ہیں اور اِن شرائط میں یہ بات بھی شامل ہے کہ مذکورہ ایپلی کیشن میں موجود گانے صرف ذاتی اور غیر تجارتی استعمال کے لئے استعمال کئے جاسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے‘ پاکستان میں فنکاروں اور گلوکاروں کے مفادات کا تحفظ کرنے والا ادارہ خاطر خواہ فعال نہیں۔ اِس حوالے سے فنکار اور گلوکار اکثر شکایت بھی کرتے رہتے ہیں کیونکہ اِس وجہ سے موسیقی کے تخلیق آمدنی کے اہم و متوقع ذریعے سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اگر موسیقاروں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے تو ’میوزک انڈسٹری‘ کو منظم کیا جا سکتا ہے۔ اس سلسلے میں حال ہی میں بھارت کی ایک عدالت ’بمبئی ہائی کورٹ‘ نے ایک اہم فیصلہ سنایا ہے۔ نوویکس کمیونی کیشنز پرائیوٹ لمیٹڈ اور فونوگرافک پرفارمنس لمیٹڈ نے ایک ہوٹل کے خلاف مقدمہ دائر کیا جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ ہوٹل کو پبلک پرفارمنس لائسنس حاصل کئے بغیر میوزک بجانے سے مستقل طور پر روکا جائے۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ نوویکس اور پی پی ایل کو باقاعدہ مجاز ایجنٹوں کے طور پر موسیقی کے کاموں کا انتظام تفویض تھا اور اِن کے پاس کاپی رائٹ ہولڈرز کی طرف سے اجازت نامے موجود تھے۔ مدعا علیہ نے دلیل دی کہ چونکہ
نوویکس اور پی پی ایل کو پی آر ایس کے طور پر رجسٹرڈ نہیں کیا گیا لہٰذا وہ مقدمہ نہیں کر سکتے۔ عدالت نے نوٹ کیا کہ دونوں کمپنیوں کے پی آر ایس کے طور پر رجسٹرڈ نہ ہونے کے باوجود‘ وہ اب بھی مدعا علیہ کو اجازت کے بغیر عوامی سطح پر موسیقی بجانے سے روکنے کا حق رکھتے ہیں کیونکہ انہیں معاہدوں کے تحت جزوی طور پر کاپی رائٹ تفویض کئے گئے تھے۔ یہ ’بی ایچ سی‘ کی طرف سے منظور کردہ اہم فیصلوں میں سے ایک فیصلہ تھا جس میں یہ بھی کہا گیا کہ موسیقی کے مالک کی رضامندی کے بغیر کسی بھی عوامی مقام پر موسیقی نہیں بجائی جا سکتی۔ اِس تناظر میں اگر ہم پاکستان کا جائزہ لیں تو پاکستان کی میوزک انڈسٹری کو ہر دن نقصان ہو رہا ہے اور سردست میوزک انڈسٹری دوبارہ سے اٹھ رہی ہے لیکن اگر کاپی رائٹ کا تحفظ نہ کیا گیا تو موسیقی کو بطور پیشہ اختیار کرنے والوں کی تعداد کم ہو جائے گی۔ موسیقی کی تشہیر کے عصری ذرائع جن میں اسٹریمنگ ایپلی کیشنز‘ سوشل میڈیا اور براہ راست کنسرٹ شامل ہیں پاکستان کے موسیقاروں‘ گلوکاروں اور فنکاروں کے لئے آمدنی کا بہتر ذریعہ ثابت ہو سکتے ہیں لیکن اگر ’کاپی رائٹس‘ کے اصولوں‘ قواعد و ضوابط اور اخلاقی و قانونی شرائط پر عمل درآمد کیا جائے اور اِس سلسلے میں حکومتی اداروں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے‘ جنہیں ہنرمند افراد کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہئے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر
عبد الرافع صدیقی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)