چین : غیرمعمولی کامیابی

سات جنوری دوہزاربیس کو صدر شی جن پنگ نے چین کو ٹیکنالوجی پر مبنی علمی معیشت میں ڈھالنے سے متعلق حکمت عملی پیش کی تو تقریباً پانچ ہزار سرکردہ سائنسدانوں اور انجینئروں کے اجتماع نے یہ اعلان خاموشی سے سنا۔ اِس موقع پر چین کے اعلیٰ ترین اعزاز انٹرنیشنل سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کولیبریشن ایوارڈ بھی دیئے گئے جو چند سائنسدانوں کو عالمی سائنس میں ان کی خدمات اور چین کے ساتھ تعاون کا اعتراف تھا۔ راقم الحروف اُن خوش قسمت لوگوں میں شامل تھا جنہوں نے صدر شی جن پنگ سے یہ اعزاز حاصل کیا۔ 1978ءکے بعد سے چین کی تیز رفتار سماجی و اقتصادی ترقی کا انسانی تاریخ میں موازنہ نہیں ملتا۔ یہ تبدیلی ڈینگ شیاو¿ پنگ کی متعارف کردہ معاشی اصلاحات سے شروع ہوئیں‘ جن کا بنیادی نکتہ تبدیلی ہے۔ اِن اقدامات میں معاشی فیصلہ سازی کو غیر مرکزی بنانا‘ نجی انٹرپرینیورشپ (چھوٹے کاروباری اداروں کے قیام) کی اجازت اور مارکیٹ پر مبنی اصلاحات متعارف کی گئیں۔ زرعی پیداوار کو اجتماعی کاشتکاری بنایا گیا جس سے زرعی پیداوار اور دیہی علاقوں میں رہنے والوں کی آمدنی میں خاطرخواہ اضافہ ہوا‘ جو اِس حکمت عملی کے خاص اجزا¿ ہیں۔ غیر ملکی سرمایہ کاری اور ٹیکنالوجی کی منتقلی کو راغب کرنے کے لئے بالخصوص ساحلی علاقوں میں خصوصی اقتصادی زونز (ایس ای زیڈز) قائم کئے گئے‘ جس سے متعلق ترجیحی پالیسیاں وضع کی گئیں جیسا کہ ٹیکس مراعات اور کاروبار شروع کرنے کی راہ میں حائل بیوروکریٹک رکاوٹیں کم کی گئیں لیکن شاید چین میں سب سے اہم اصلاحات بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا تھا یعنی بڑے پیمانے پر کرپشن کا خاتمہ کر کے چین نے غیرمعمولی ترقی کی ہے اور اگر اِس تناظر میں پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو دیکھا جائے تو اِن کے قرضوں کا بوجھ بھی قومی مالیاتی کو دیمک کی طرح چاٹ کھانے والی اِسی بدعنوانی کی وجہ سے ہے۔ صدر شی جن پنگ نے سال دوہزارتیرہ سے بدعنوانی کے خلاف وسیع مہم کا آغاز کر رکھا ہے‘ جس میں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور حکمراں جماعت کی جانب سے مالیاتی نظم و ضبط کو فروغ دینے کی کوششیں شامل ہیں۔ اِس قابل ذکر مہم میں خاطرخواہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جن میں ہائی پروفائل گرفتاریاں‘ وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات اور حکومت کی تمام سطحوں پر بدعنوان عہدیداروں کو سزائیں دینا شامل ہیں۔ سینٹرل کمیشن فار ڈسپلن انسپکشن (سی سی ڈی آئی) جیسے خصوصی اینٹی کرپشن اداروں کے قیام نے قانون کے نفاذ کو مضبوطی سے لاگو کیا ہے اور بدعنوانی کے طریقوں کی زیادہ مو¿ثر نگرانی اور تحقیقات ممکن بنائی ہے۔ اِس موقع پر اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کو مثالی سزائیں دی گئیں اور اِس نکتے کو بالخصوص اجاگر کیا گیا کہ کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں۔ پولٹ بیورو کے سابق رکن اور چونگ چنگ کے پارٹی سیکریٹری بو شی لائی اُن اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے جنہیں شی جن پنگ کے انسداد بدعنوانی کے دائرے میں شامل کیا گیا۔ بو کو سال دوہزارتیرہ میں ہائی پروفائل مقدمے میں رشوت خوری‘ غبن اور اختیارات کے غلط استعمال کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔ اُنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ پولٹ بیورو اسٹینڈنگ کمیٹی کے سابق رکن اور چین کے سکیورٹی اداروں کے سربراہ ژاو¿ یونگ کانگ انسداد بدعنوانی مہم کا دوسرا بڑا ہدف بنے۔ ژو کو سال دوہزارپندرہ میں مالی امور میں بدعنوانی‘ اختیارات کے غلط استعمال اور ریاستی راز افشا کرنے کا مجرم قرار دیتے ہوئے اُنہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی اور وہ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے بدعنوانی کے الزام میں مقدمہ چلانے والے اعلیٰ ترین عہدے دار بن گئے۔ بدعنوانی کے خلاف اِس کریک ڈاو¿ن نے حکومت اور پارٹی پر عوام کے اعتماد میں اضافہ کیا اور احتساب و قانون کی حکمرانی کے غیرمتزلزل عزم کا اظہار ہوا۔ چین کی قومی معیشت کے فروغ‘ جدت اور انٹرپرینیورشپ کی سرپرستی کے لئے ’ایس ای زیڈز‘ کا قیام عمل میں لایا گیا‘ جس کا آغاز شینزین‘ ژوہائی اور دیگر ساحلی شہروں سے ہوا۔ ایس ای زیڈز نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہولت کاری فراہم کی اور انہیں ٹیکسوں میں چھوٹ‘ مراعات‘ بیوروکریٹک طریقہ کار سے نجات اور سستی افرادی قوت تک رسائی دینا شامل ہے۔ ایس ای زیڈز نے براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو بھی راغب کیا جبکہ ٹیکنالوجی کی منتقلی کی سہولت فراہم کی اور برآمدات پر مبنی مینوفیکچرنگ کو فروغ دیا‘ جس سے آج کے چین کو معاشی طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور چین اب عالمی معیشت میں انضمام کر چکا ہے۔چین کا ایک اور اہم اقدام بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) ہے۔ یہ کثیر الجہتی بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی ترقی کی حکمت عملی ہے جس کا مقصد ایشیا‘ افریقہ اور یورپ میں روابط بڑھانا اور اقتصادی تعاون کو فروغ دینا ہے۔ اس میں سڑکوں‘ ریلویز‘ بندرگاہوں اور پائپ لائنوں کی تعمیر کے ساتھ توانائی‘ ٹیلی کمیونی کیشن اور دیگر اہم شعبوں میں سرمایہ کاری شامل ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ایک عام خرابی کا تعلق سرکاری شعبے کے نااہل کاروباری اِداروں سے ہے جو ان کی معیشتوں پر ایک بہت بڑا بوجھ بن چکے ہیں۔ پاکستان میں ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح پی آئی اے‘ سٹیل ملز‘ ریلویز اور دیگر سرکاری ادارے کرپشن اور نااہلیوں کی وجہ سے قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ چین میں سرکاری ملکیت کے کاروباری اداروں (ایس او ایز) کی اصلاحات کی کوششوں نے سرکاری اداروں کی کارکردگی اور منافع کو بہتر بنایا ہے جبکہ معیشت میں حکومتی مداخلت کو بھی کم ہوئی ہے۔ اِن معاشی اصلاحات کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں حکومت کے ساتھ نجی شعبے کو ملکیت دی گئی ہے اور اِس جیسے اقدامات سے نجی سرمائے کو ایکویٹی پارٹنرشپ یا عوامی لسٹنگ کے ذریعے ایس او ایز میں متعارف کیا گیا ہے نیز غیر مو¿ثر اور غیر ضروری سرکاری ملکیت کے اثاثوں کی تنظیم نو اور استحکام بھی اِسی حکمت عملی کے ثمرات میں شامل ہے۔مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی ترقی پر چین کی توجہ کے باعث ”نیشنل اے آئی ڈویلپمنٹ پلان“ اور ”نیو جنریشن‘ اے آئی ڈویلپمنٹ پلان“ جیسے اقدامات کئے گئے ہیں جن کی وجہ سے چین سال دوہزارتیس تک مصنوعی ذہانت میں عالمی رہنما بننے کے لئے پرعزم ہے۔ چین کی مصنوعی ذہانت کی صنعت خود کار موٹر گاڑیوں‘ چہرے کی شناخت‘ مشین لرننگ اور زبانوں (لینگویجز) کی پروسیسنگ‘ جدید ڈرائیونگ‘ معاشی بہتری و مسابقت اور ڈیجیٹل دور میں معاشرتی تبدیلیوں جیسے شعبوں کا احاطہ کرتی ہے۔ چین اب کوانٹم کمیونیکیشن نیٹ ورک کی ترقی میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ’کوانٹم فزکس‘ کے اصولوں سے خاطرخواہ فائدہ اُٹھا رہا ہے۔ ان اقدامات میں کوانٹم کی ڈسٹری بیوشن (کیو کے ڈی) ٹیکنالوجی‘ کوانٹم سیٹلائٹس اور کوانٹم کمیونی کیشن نیٹ ورکس جیسے شعبوں کی ترقی شامل ہیں۔ (مضمون نگار ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی و سابق چیئرمین اور سابق وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عطا الرحمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)