موسمیاتی تبدیلی: علم و عمل


کارل مارکس نے کہا تھا کہ ہر ایک سے اس کی صلاحیت کے مطابق امید رکھیں اور ہر ایک سے اس کی ضروریات کے مطابق معاملہ کریں۔ اِس اقتباس کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ کرہ  ارض کی اپنی ضروریات ہیں اور یہ کہ کرہ  ارض کا قدرتی طور پر قائم کیا گیا ماحولیاتی تنوع ہم میں سے ہر ایک کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور اِس اجتماعی ذمہ داری کو ادا کرنے کے لئے عالمی سطح پر صلاحیت کو یکجا کرتے ہوئے علمی و عملی کی ایسی مربوط کوششوں کی ضرورت ہے جس سے آب و ہوا کی تبدیلی کے چیلنج کا کامیابی سے مقابلہ کیا جا سکے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کے بڑھتے ہوئے چیلنجوں سے نمٹنے کی جستجو میں مو ثر پالیسیوں کو سمجھنے اور تشکیل دینے کے لئے متنوع نظریاتی فریم ورک سے استفادہ کرنا ضروری ہے۔ ان میں کارل مارکس کے معروف ٹکراو  کے نظریہ اور ساختی فنکشنلزم کا نمونہ بصیرت کا حامل ہے جس کا اطلاق موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی خاص طور پر پاکستان کے تناظر میں کیا جا سکتا ہے۔ کارل مارکس کا پیش کردہ مذکورہ نظریہ کہتا ہے کہ معاشرتی ڈھانچے فطری طور پر طاقت اور وسائل کی غیرمساوی تقسیم سے پیدا ہونے والے تنازعات کی علامت ہوتے ہیں اور جب اِس نظریئے کو آب و ہوا کی تبدیلی سے متعلق پالیسی پر لاگو کیا جائے تو یہ نظریہ ماحولیاتی انحطاط اور اس کے ممکنہ نتائج کا خمیازہ برداشت کرنے والوں کے درمیان فرق کو واضح کرتا ہے۔ پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پسماندہ اور غریب برادریاں زیادہ شدت سے محسوس یا برداشت کر رہی ہیں جن کے پاس وسائل اور فیصلہ سازی کی طاقت تک رسائی بھی محدود ہے۔ تنازعات کے نظریے کا نقطہ نظر آب و ہوا کی پالیسیوں کی ضرورت پر زور دیتا ہے جو عدم مساوات کو دور کرتی ہیں اور اِس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ آب و ہوا میں خرابی کا بوجھ اور اِس سے حاصل ہونے والے فوائد مساوی طور پر تقسیم کئے جائیں۔پاکستان کے لئے موسمیاتی تبدیلی کی جامع مو ثر اور منصفانہ حکمت عملی تیار کرنے کے لئے سب سے پہلے ایکویٹی پر مبنی فنانسنگ میکانزم اور وسائل کی منصفانہ تقسیم یقینی بنانا ہوگی۔ ماحول دشمن گیسیں یا کیمیائی مادے خارج کرنے والی صنعتوں پر کاربن ٹیکس جیسے ترقی پسند ٹیکس کا نفاذ ہونا چاہئے اور اِس ٹیکس سے حاصل ہونے والی آمدنی آب و ہوا سے مطابقت اور اِس کی خرابی میں تخفیف کے منصوبوں کے لئے مختص ہونی چاہئے جس کے لئے پسماندہ برادریوں پر زیادہ توجہ مرکوز رہنی چاہئے۔ بین الاقوامی موسمیاتی فنانس سمیت مختلف ذرائع سے وسائل جمع یا حاصل کئے گئے وسائل سے قومی موسمیاتی فنڈ بھی قائم کیا جانا چاہئے تاکہ نچلی سطح کے اقدامات اور کمیونٹی کی بہتری و بحالی میں مدد کی جاسکے۔ اس کے لئے آب و ہوا سے متعلق سمارٹ انفراسٹرکچر کی تعمیر آبادی میں آب و ہوا سے متعلق سمارٹ شہری احساس آب و ہوا سے آگاہ حکومت آب و ہوا کے بارے میں شعور رکھنے والے فیصلہ سازوں کی ضرورت ہوگی۔ درحقیقت یہ سیاسی سفارتی معاشی اور مالی طور پر بہت ہی اہم کام ہے۔ دوسرا شراکتی گورننس ماڈل قائم کر کے بھی مقامی برادریوں کو بااختیار بنایا جا سکتا ہے اور فیصلہ سازی کے عمل میں مالی طور پر کمزور گروہوں کو شامل سفر کیا جا سکتا ہے۔ کمیونٹی بیسڈ آرگنائزیشنز (سی بی اوز) اور مقامی کلائمیٹ ایکشن کمیٹیوں کا قیام موسمیاتی پالیسیوں کی منصوبہ بندی اور نفاذ میں براہ راست شرکت یقینی بنا سکتا ہے۔ شراکتی بجٹ سازی کے عمل کو بہرصورت نافذ کیا جانا چاہئے تاکہ برادریوں کو اپنے علاقوں کے اندر آب و ہوا کی مالیات کی تقسیم اور اخراجات کی اپنی ضرورت کے مطابق اجازت مل سکے۔ تیسرا پالیسی فریم ورک کو غیر مرکزی بنانا جائے جس سے آب و ہوا کے تحفظ میں علاقائی خود مختاری حاوی رہے۔ صوبائی اور ضلعی حکومتوں کو مقامی ماحولیاتی حالات اور سماجی و اقتصادی سیاق و سباق کے مطابق اپنے اپنے ایکشن پلانز تیار کرنے اور ان پر عمل درآمد کرنے کے لئے بااختیار بنایا جانا چاہئے۔ موسمیاتی پالیسی کی منصوبہ بندی نفاذ اور نگرانی میں استعداد کار بڑھانے کے لئے مقامی حکومتوں کو تکنیکی اور مالی مدد فراہم کی جائے۔ مختلف خطوں میں آب و ہوا سے متعلق اقدامات میں مستقل مزاجی اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کے لئے بین الصوبائی رابطہ کاری اور معلومات کے تبادلے کی حوصلہ افزائی بھی ہونی چاہئے۔ چوتھا مربوط تشخیصی ماڈل اور اصلاحات کے نقطہ نظر کو اپنایا جائے جس سے سماجی معاشی اور ماحولیاتی نظاموں کے مابین روابط کا تجزیہ کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ قومی موسمیاتی تبدیلی کی حکمت عملی تیار کی جانی چاہئے جو پائیدار ترقیاتی اہداف کے ساتھ ہم آہنگ ہو اور کثیر الجہتی ایکشن پلان اِس کا حصہ ہونا چاہئے۔ اِس حکمت عملی کو اقتصادی ترقی سماجی مساوات اور ماحولیاتی استحکام پر مبنی آب و ہوا کی پالیسیوں کے اثرات پر غور کرنا چاہئے۔ پانچواں نکتہ یہ ہے کہ ایسی حکمت عملیوں میں سرمایہ کاری کی جائے جو جس سے نچلی سطح کی برادریوں کی استعداد کار میں اضافہ ہو۔ چھٹا نکتہ یہ ہے کہ پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کو فروغ دیا جائے۔ مزید برآں علاقائی سطح پر ماحولیاتی تعاون کا فروغ ہونا چاہئے۔ پاکستان دیگر جنوبی ایشیائی ممالک کے ساتھ علم وسائل اور حکمت عملی کے تبادلے کے لئے تعاون کو فروغ دے سکتا ہے۔ اس تعاون کا مقصد علاقائی سطح پر آب و ہوا کی بہتری ہے جس کے لئے سب سے پہلے یہ حقیقت تسلیم کرنا پڑے گی کہ آب و ہوا کی تبدیلی صرف پاکستان کا نہیں بلکہ عالمی چیلنج ہے (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر خالد ولید۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)


 اور اِس تناظر میں سارک تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان زیادہ تعاون اور اِس تنظیم کو مزید بامقصد بنانے پر سوچ بچار ہونا چاہئے۔ ساتواں نکتہ اِس بات کا اعتراف کرنا ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا اپنی پوری کوشش اور پورے وسائل سے جامع ماحولیاتی قانون سازی کرے۔ گرین ہاؤ س گیسوں کے اخراج کو کم کیا جائے اور آب و ہوا سے متعلق اقدامات کے لئے ایک مضبوط قانونی فریم ورک قائم کیا جائے۔ تمام چھوٹے بڑے ترقیاتی منصوبوں سے پہلے ماحولیاتی اثرات کی تشخیص لازمی قرار دینے والے قواعد و ضوابط پر عمل درآمد اس بات کو یقینی بنانے کے لئے ضروری ہے کہ ہم آب و ہوا کے خطرات سے آگاہ ہیں اور اِن سے مزید متاثر نہیں ہونا چاہتے۔