امریکہ کے دوسرے سب سے بڑے بینکنگ ادارے ’بینک آف امریکہ کارپوریشن‘ نے پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کا خیرمقدم کرتے ہوئے سیاسی غیر یقینی کا حوالہ دیتے ہوئے پاکستانی ڈالر بانڈز کی قدر میں اضافے کی سفارش کی ہے جو ایک مثبت اقدام ہے اور یہ بات طے ہے کہ حکومت سازی کا عمل مکمل ہونے کے بعد اگر ملک میں معاشی و سیاسی استحکام کا دور دورہ ہوتا ہے تو اِس سے بہتری و اصلاحات کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار ہوں گی جنہیں عالمی حمایت بھی حاصل ہے۔ بنیادی طور پر بینک آف امریکہ سمجھتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے جاری کردہ بانڈز میں سرمایہ کاری کرنے کا یہ اچھا وقت ہے۔ بینک آف امریکہ یہ بھی تجویز دے رہا ہے کہ لوگ سرمایہ کاری پورٹ فولیو کا بڑا حصہ دیگر آپشنز کے مقابلے میں پاکستانی بانڈز کے لئے مختص کریں۔سوال: بینک آف امریکہ کو یہ سفارش کرنے پر کس چیز نے مجبور کیا ہے؟ جواب: بینک آف امریکہ کا ماننا ہے کہ حالیہ پاکستانی عام انتخابات نے سیاسی صورتحال میں بہتری جیسا قابل قدر اضافہ کیا ہے جو معیشت کے لئے اچھا ہے۔سوال: اس کے بعد کیا ہو سکتا ہے؟ جواب: وہ عالمی مالیاتی ادارے جو اب تک پاکستان کے
بانڈز میں سرمایہ کاری کو خطرہ قرار دیتے تھے وہ بھی بینک آف امریکہ کی جانب سے اُمیدافزا اعلان کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کی ریٹنگ میں اضافہ کر سکتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی ریٹنگ پاکستان کے قرضوں کی ادائیگی کے لئے بھی اہم ہے کیونکہ اِس کے نتیجے میں سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوگا۔ بینک آف امریکہ نے اپنے اختتامی نوٹ میں کہا ہے کہ ”سیاسی خطرات اپنی جگہ رہیں گے تاہم دیکھنا ہوگا کہ حکومت سازی کا عمل کابینہ کی تشکیل سے کس طرح مکمل کیا جاتا ہے اور آئی ایم ایف کی شرائط پورا کرنے میں پاکستان کتنی سنجیدگی سے عمل درآمد کرتا ہے۔ اِن سبھی اقدامات کا صرف بینک آف امریکہ ہی نہیں بلکہ دیگر مالیاتی ادارے اور حکومتیں بھی قریب سے جائزہ لے رہی ہیں۔ بینک آف امریکہ نے سرمایہ کاروں کو پاکستان کی طرف متوجہ کیا اور سب کی نظریں اب اگلے وفاقی وزیر خزانہ پر ٹکی ہوئی ہیں کہ وزیر خزانہ سمیت دیگر اہم سرکاری عہدوں پر کون تعینات ہوتا ہے۔ اِس پورے منظرنامے میں سیاست اب بھی اہمیت رکھتی ہے۔ پاکستان میں سیاسی تقرریاں اب بھی معیشت کو متاثر کر سکتی ہیں جس سے سرمایہ کار پریشان ہو سکتے ہیں۔ جی ہاں‘ صرف تعیناتی نہیں ہونی چاہئے بلکہ متعلقہ شعبے کی مہارت بھی دیکھنی چاہئے جو یکساں اہم ہے۔ سرمایہ کار یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ کیا نئی تقرریوں میں سخت فیصلے کرنے اور اپنے وعدوں پر قائم رہنے کا مظاہرہ کیا جاتا ہے یا نہیں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ رواں سال پاکستان کو 24 ارب ڈالر سے زیادہ کی بیرونی فنانسنگ کی ضرورت ہے جسے پورا کرنے کے لئے آئی ایم ایف کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے۔ آئی ایم ایف کی سخت شرائط ہوں گی اور سرمایہ کار اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ نئی حکومت ان پر عمل کرنے میں سنجیدہ ہو۔ سرمایہ کار پاکستان کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں لیکن اس سے پہلے کہ انہیں اطمینان اور ضمانت چاہئے۔ درحقیقت وہ یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ قومی فیصلہ سازی کا انچارج کون ہے اور کیا نئی ٹیم معیشت کو ٹریک پر رکھتے ہوئے رواں دواں رکھ سکتی ہے۔بینک آف امریکہ کی توثیق پاکستان کی معیشت کے لئے مثبت امکانات کی نشاندہی
ہے تاہم اصل امتحان اہم سرکاری عہدوں بالخصوص وزیر خزانہ کے محتاط انتخاب میں ہے۔ سرمایہ کار نئی ٹیم وفاقی کابینہ کی رونمائی کا بے چینی سے انتظار کر رہے ہیں۔ سرمایہ کار نئی ٹیم کی اسٹریٹجک بصیرت اور آئی ایم ایف کی شرائط کے پیچیدہ جال کو لے کر چلنے کی صلاحیت کا جائزہ لیں رہے ہیں۔ نومنتخب وزیر اعظم کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے کہ سرمایہ کار آنے والی وفاقی کابینہ کے اراکین سے تین خصوصیات چاہیں گے۔ اہلیت‘ چیلنجز کا سامنا کرنے میں دلچسپی اور اپنے کردار اور ذمہ داریوں کے تئیں غیر متزلزل لگن کا مظاہرہ۔ وزیر اعظم کو چار دیگر کام بھی کرنا ہوں گے: فیصلہ سازی میں شفافیت کو ترجیح دینا۔ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول کا فروغ۔ مالی ذمہ داری کے تئیں عزم کا مظاہرہ اور قومی مالی ذمہ داری کے تئیں عزم کا اظہار۔ نومنتخب وزیر اعظم کو فیصلہ سازی میں شفافیت کو ترجیح دینا ہوگی۔ نومنتخب وزیر اعظم کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول کو فروغ دینا ہوگا۔ نومنتخب وزیر اعظم کو مالی ذمہ داری کے عزم کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور وزیر اعظم کو قومی وسائل کے مو¿ثر استعمال سے قومی ترقی یقینی بنانا ہوگی۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)