بھارت کی سیاسی قیادت ہمیشہ اکثریتی ہندو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ رہی ہے اور اِسی بیانئے کی بنیاد پر بھارت میں انتخابی عمل کو تشکیل دیا جاتا ہے اور اِسی کے مطابق سیاسی قوتیں اپنے اپنے انتخابی منشور بھی تیار کرتی ہیں۔ انڈین نیشنل کانگریس اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں۔ بہت ہی کم سیاسی جماعتیں ایسی ہیں جو سماج کے سیکولر اور تکثیری نقطہ نظر کو کبھی فراموش نہیں کرتیں۔ آر ایس ایس کے ایجنڈے کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 1998ءمیں پہلی مرتبہ بھارتی سیاسی منظر نامے پر غلبہ حاصل کیا۔ پارٹی کو پہلے ہی ہندوتوا ذہنیت کی ترجمان کے طور پر پیش کیا جاتا تھا‘ یہ اصطلاح پہلی بار ”وی ڈی ساورکر“ نے 1923ءمیں استعمال کی تھی۔ نئی دہلی میں ’بی جے پی‘ کے سیاسی طور پر اُبھرنے کے ساتھ ہی ہندو قوم پرستی روز کا معمول بن گئی اور ’آر ایس ایس‘ کی پوری مشینری کو ملک بھر میں ڈرانے دھمکانے والے سیاسی ایجنڈے کے ذریعے دیگر تمام نسلی اکائیوں پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جانے لگا۔ کشمیر‘ گجرات‘ منی پور‘ پنجاب اور بھارت کے بہت سے دیگر حصوں میں ریاستی سرپرستی میں جبری کاروائیاں ایک خاص بھارتی ذہنیت کو معاشرے کے جمہوری اور سیکولر بقائے باہمی کی پرواہ کئے بغیر اپنے مذموم ایجنڈے کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتی ہیں۔ نریندر مودی کے نئی دہلی میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالنے کے ساتھ ہی اِس ڈرانے دھمکانے پر مبنی کاروائیاں اقلیتوں کے خلاف سراسر تشدد میں بدل گئیں۔ ہندو بالادستی کے اِس ماڈل کو برقرار رکھنے کے چیلنجوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بی جے پی حکومت اس بات پر چوکس رہی کہ ان کے تفرقہ انگیز ایجنڈے سے متعلق مستقل طریقہ کار کیسے وضع کیا جائے۔ سیاسی‘ سماجی‘ اقتصادی اور یہاں تک کہ سفارتی شعبوں میں بھی مودی حکومت نے ہندو نوجوانوں کے ذہنوں پر اثر انداز ہونے کے لئے ہم آہنگ تعلیمی نصاب متعارف کروا کر اپنے تفرقہ انگیز منصوبے کی تخلیق اور تشہیر کا آغاز کیا۔ درسی کتابوں میں تبدیلیوں سے بھارت کو بڑیہندو تہذیب کے طور پر دکھایا گیا‘ جس میں کسی دوسری مذہبی یا نسلی شناخت کا کردار نہیں ہے‘ جس سے نوجوانوں میں ہندو اکثریتی ہندوستان پر یقین پیدا ہوتا ہے۔ یہ تفرقہ انگیز عزائم اور فرضی بیانیے بھارت کے ’دنیا کی سب سے بڑی اور مبینہ ترقی پسند جمہوریت‘ ہونے کے دعوو¿ں کے برعکس ہیں۔ اقلیتوں کا مذاق اڑانے اور ان پر غلبہ حاصل کرنے کی فکری بددیانتی کسی بھی طرح سے بھارتی معاشرے کی پہچان نہیں جس کے ساتھ بھارت خود کو منسلک کرتا ہے۔ من گھڑت ویژن کے ذریعے بھارتی طالب علموں کے ذہنوں کو آلودہ کیا جاتا ہے۔ واقعات اور لوگوں کو ہندوتوا کے نظریے سے جوڑنا ایک ایسے نظریے کو نافذ کرنے کا ’غیر معمولی طریقہ‘ ہے جس کی کوئی اہمیت اور ساکھ نہیں ہے۔تعلیم‘ فنون لطیفہ‘ ثقافت اور دیگر شعبوں میں بڑے پیمانے پر خدمات کے ساتھ مسلم حکمرانی کو خارج کرنا بھارتی نوجوانوں کو حقیقت سے عاری کہانیوں سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔ برطانوی حکمرانی کو ترک کرنا اور آزادی کے لئے واحد تحریک کا خیال پیش کرنا کسی بھی طرح سے تاریخ کے ساتھ انصاف نہیں۔ مودی حکومت کی جانب سے تاریخ کو اساطیر سے بدلنے کی کوششیں ہندو قوم پرستی کے تصور کے مطابق ہیں جس میں کسی دوسرے نظریئے کی گنجائش نہیں ہے۔ بی جے پی حکومت کی اس مداخلت سے پہلے بھارت میں بہت سے مذاہب‘ ثقافتوں‘ ذاتوں اور عقائد سے تعلق رکھنے درسی کتابوں کا حصہ ہوتے تھے تاہم نئے نصاب تعلیم میں بھارت کو ایک ’قدیم شاندار تہذیب‘ کے طور پر دکھایا گیا ہے جس کا سہرا ان لوگوں کو جاتا ہے جو اس وقت کے حقیقی باشندے کہلاتے ہیں۔ یہ دعویٰ ایک بار پھر جینیاتی اور لسانی شواہد کے برعکس ہے جہاں قدیم بھارت ایک تکثیری معاشرے کے طور پر کھڑا ہے جو بہت سی نسلوں‘ ذاتوں اور عقائد کا مجموعہ ہے۔سائنسی اختراعات کو ویدک تہذیب (پندرہ سو قبل مسیح سے پانچ سو قبل مسیح تک کے عرصے) سے منسوب کرکے انہیں بدنام کرنا اور ان حقائق کو نظر انداز کرنے کی کوشش ہے جن کی ہندوستانی مو¿رخین سمیت دنیا کے متعدد مو¿رخین نے تصدیق کی ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے دور حکومت میں ہندو عقائد اور مسخ شدہ تاریخ کے درمیان بہت سے ویدک تصورات دھندلا گئے ہیں۔ متعصبانہ عقائد کو حقائق کے طور پر پیش کرنے سے ایک ایسی نسل جنم لے چکی ہے جسے ایک روادار اور جمہوری معاشرے کے بھارت کی واضح خوبیوں کی بظاہر پرواہ نہیں ہے۔ اپنی انتخابی جیت کے جنون میں مبتلا ’بی جے پی‘ ہر طرح کی چالیں چل رہی ہے‘ جس میں فالس فلیگ آپریشن کے ذریعے جنگی جنون کی کوششیں‘ کھیلوں کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا اور اپنے سیاسی مقاصد کے لئے کئی دیگر ہتھکنڈے شامل ہیں۔ بی جے پی کی جانب سے تفرقہ انگیز کوششوں کا مقصد بھارت کے ہندو نوجوانوں کے ذہنوں میں نفرت پیدا کرنا ہے اور اس کے بھارتی معاشرے پر سنگین سیاسی اور سماجی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایک جمہوری اور سیکولر سیاست کے طور پر بھارت کا امیج شدید خطرے میں ہے جس میں داخلی خلفشار کے امکانات ہیں اور اس کے علاقائی استحکام اور عالمی امن پر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر اُم ایمن۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
حقائق کی تلاش
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
غربت‘ تنازعہ اور انسانیت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
افغانستان: تجزیہ و علاج
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
کشمیر کا مستقبل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
درس و تدریس: انسانی سرمائے کی ترقی
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد پولیو جدوجہد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیاتی تبدیلی: عالمی جنوب کی مالیاتی اقتصاد
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مہلک موسم
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
انسداد غربت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جارحانہ ٹرمپ: حفظ ماتقدم اقدامات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام