قومی ترقی : خواتین کا کردار

رواں برس خواتین کے عالمی دن کا موضوع ”خواتین میں سرمایہ کاری: ترقی میں تیزی لانا“ ہے یہ موضوع درحقیقت ترقی اور خوشحالی کےلئے خواتین کو بااختیار بنانے کی اہمیت پر زور دینے اور اِسے اجاگر کرنے کےلئے منایا گیاہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق ”خواتین اور لڑکیاں عالمی آبادی کا 49.7 فیصد ہیں‘ لیکن اکثر خواتین کے مسائل کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور آبادی سے متعلق قومی فیصلہ سازی کرتے ہوئے خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔“ اگرچہ خواتین کو زندگی کے ہر شعبے میں شریک سفر کیا جانا چاہئے لیکن ایک اہم شعبہ موسمیاتی تبدیلی کا بھی ہے جس میں اگر خواتین کی صلاحیتوں اور کردار کی اہمیت کو سمجھا جائے تو اِس سے خاطرخواہ (یعنی) بہتر نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔ آب و ہوا کی تبدیلی دنیا بھر میں خواتین کو نسبتاً زیادہ متاثر کر رہی ہے اور یہ صنفی امتیازات کا سبب بھی ہے۔ خواتین کے عالمی دن کے موضوع کو بغور دیکھا جائے تو یہ آب و ہوا کی تبدیلی سے پیدا ہونے والے بحرانوں پر یکساں لاگو ہوتا ہے۔ آب و ہوا کی تبدیلی کی وجہ سے رونما ہونے والی آفات کے دوران‘ امدادی کوششوں میں خواتین اور مقامی ثقافتوں اور روایات کی ضروریات کا خاص خیال رکھنا چاہئے۔ بہت سے پسماندہ اور روایتی معاشروں میں‘ عورتیں اپنے گھروں میں مردوں کے بغیر دوسری جگہوں پر منتقل نہیں ہو سکتیں لہٰذا امدادی کارکنوں اور رضاکاروں کو امدادی کاموں میں مقامی اقدار اور ثقافتوں کا خیال رکھنے کے لئے تربیت یافتہ اور زیادہ باخبر ہونا چاہئے۔صنفی حساسیت کی بہتر تفہیم اور متاثرہ خواتین کے لئے ان کی ضروریات اور مسائل کے بارے میں بات چیت آسان بنانے کے لئے ضروری ہے کہ امدادی کارکنوں میں خواتین عملہ شامل کیا جائے جو بہت ہی مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اسی طرح ایمرجنسی میں جب تمام ہیلتھ کیئر یونٹس‘ طبی عملے اور سہولیات کو امدادی کاموں کی طرف موڑ دیا جاتا ہے تو خواتین سے متعلق صحت کے مسائل کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ خواتین سے متعلق صحت کی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے صحت کے یونٹوں میں ڈاکٹروں اور طبی عملے کو وقف کرنا ضروری ہے۔ اس کے علاو¿ہ موسمیاتی تبدیلی کی آفات بھی خواتین کی مالی طور پر بااختیار بنانے پر منفی اثر مرتب کرتی ہیں اور ان پر خاندانی ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھاتی ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق” کم اور کم متوسط آمدنی والے ممالک میں خواتین کے لئے زراعت سب سے اہم روزگار کا شعبہ ہے‘ خشک سالی اور بے ترتیب بارش کے دوران‘ خواتین کو بطور زرعی کارکن سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔“ کچھ معاملات میں‘ لڑکیوں کو کھیتوں میں اپنی ماو¿ں کی مدد کرنے کے لئے اپنی تعلیم چھوڑنا پڑتی ہے‘ جس سے صنفی عدم مساوات کا فرق بھی بڑھ جاتا ہے۔ آب و ہوا کی وجہ سے رونما ہونے والی آفات کی صورت میں‘ حکومتوں کو کسی بھی آفت سے بچانے اور خواتین کی مالی کمزوریوں کا احساس کرتے ہوئے اُن کی ملکیتی زمینوں اور فصلوں کی انشورنس پالیسیوں کا اعلان کرنا چاہئے۔ اسی طرح‘ کسی بھی ہنگامی صورتحال کے دوران‘ خواتین اور لڑکیاں جرائم کا نشانہ بنتی ہیں۔ اسمگلنگ اور دیگر غیرقانونی سرگرمیوں کے لئے بھی خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور یوں مالی مشکلات اور نقل مکانی کی وجہ سے صنفی بنیاد پر تشدد کے واقعات میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ مالی نقصانات اور گھر کی کفالت خواتین کے لئے چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لئے کم عمری کی شادیاں اور چائلڈ لیبر کے واقعات دیکھنے میں آتے ہیں اور اِن واقعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ بہت سے دیگر معاملات میں بھی خواتین اور لڑکیاں تشدد کا شکار ہو رہی ہیں۔ ولسن سنٹر کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”خشک سالی کے دوران‘ مشرقی افریقہ میں خواتین اپنے اہل خانہ کے لئے پانی جمع کرنے کے لئے دور دراز کا سفر کرتی ہیں‘ جس سے اُنہیں جسمانی تشدد اور مشقت کا سامنا رہتا ہے۔ صنفی بنیادوں پر جرائم پر نظر رکھنے کے لئے موسمیاتی تبدیلی کے باعث ہنگامی حالات کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کا حساس اور فعال ہونا ضروری ہے۔ جینڈر سیل اور مخصوص ہیلپ لائن نمبر کا قیام اس طرح کے جرائم کو کم کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ عام طور پر‘ خواتین اور مقامی لوگوں کو اس طرح کے واقعات کی اطلاع دینے اور اپنے حقوق کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ آگاہی مہم خواتین اور مقامی برادریوں کو اس طرح کے جرائم کے خلاف زیادہ چوکس رہنے اور مخصوص ہیلپ لائن پر رپورٹ کرنے کے لئے حساس بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صنف پر آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات‘ مقامی سطح پر محدود ہیں اور یہ تحقیق کی کمی بھی قانون سازوں اور پالیسی سازوں کو ثبوت پر مبنی پالیسیاں فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس کی وجہ سے آب و ہوا کی وجہ سے ہونے والی تباہی کے دوران صنفی حساسیت سے مو¿ثر طریقے سے نمٹنے میں ناکامی ہوتی ہے۔ حکومتوں کو چاہئے کہ وہ اس شعبے میں تحقیق کی حمایت کے لئے وظائف کا اعلان کریں۔ مزید برآں‘ محققین اور ماہرین تعلیم‘ خاص طور پر خواتین کو دیگر اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ پالیسی سازی کے عمل میں بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ آب و ہوا کی تبدیلی سے براہ راست متاثر ہونے والی مقامی برادریوں کی خواتین کو تربیت دینا بھی یکساں اہم و ضروری ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لئے خواتین رہنماو¿ں کو ماسٹر ٹرینرز کے طور پر منتخب کیا جاسکتا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے بحرانوں سے نمٹنے‘ مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے خواتین کی ترقی میں سرمایہ کاری وقت کی ضرورت ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ظل ہما۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)