نجکاری

پاکستان کا معاشی انجن سست روی سے چل رہا ہے اور شرح نمو کم ہوتے ہوتے صرف ایک فی صد رہ گئی ہے۔ قومی بجٹ کا خسارہ 8500 ارب روپے تک پہنچنا قطعی معمولی بات نہیں کیوںکہ اِس سے مالی استحکام پر غیر یقینی کے سائے مزید گہرے ہو رہے ہیں جب کہ سرکاری قرضے 80 کھرب روپے ہیں‘ جن میں اضافہ مزید معاشی پریشانیاں لائے گا۔ اِس نازک موڑ پر حکومت کو ’ناقابل تردید حقیقت‘ کا سامنا ہے اور وہ یہ ہے کہ سرکاری اداروں کی نجکاری صرف ایک آپشن نہیں رہا بلکہ ملک کو معاشی طور پر آگے بڑھانے کا واحد قابل عمل راستہ (حل) بن چکا ہے۔ نجکاری ناگزیر ضرورت ہے جو موجودہ معاشی حالات (وقت کے تقاضوں) کے عین مطابق و موافق ہے۔ نجکاری کا فیصلہ محض ترجیحات سے بالاتر ہے۔ جس کے حل کیلئے فوری کاروائی کا مطالبہ‘ غیرحکومتی معاشی ماہرین کی طرف سے بھی سننے میں آ رہا ہے۔ 1: بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں: ملک بھر میں مختلف علاقوں میں بجلی کی تقسیم کی ذمہ دار بذریعہ 10 ڈسٹری بیوشن کمپنیاں (ڈی آئی ایس سی اوز) کے ذریعے ہوتی ہے جو ہر سال قومی خزانے کو چھ سو ارب روپے کا نقصان پہنچا رہی ہیں۔ مالی وسائل کی مسلسل کمی کی وجہ سے اِس شعبے میں اصلاحات اور تنظیم نو کی فوری ضرورت ہے۔ 2: بجلی کا گردشی قرضہ: سال دوہزارآٹھ میں گردشی قرض ڈیڑھ سو ارب روپے تھا جو بڑھ کر تین ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ حیران کن طور 
پر اندازوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اعداد و شمار مزید بڑھنے والے ہیں اور صرف ایک سال کے اندر خطرناک حد تک یعنی چار ہزار ارب روپے تک پہنچ جائیں گے۔ اس طرح کی تیزی سے ترقی نہ صرف توانائی کے شعبے پر مالی دباو¿ میں اضافہ ہوگا بلکہ ملک کے مجموعی معاشی استحکام کیلئے بھی بجلی کا گردشی قرض سنگین خطرہ ہے۔ 3: سوئی ناردرن اور سوئی سدرن: ملک میں گیس کی فراہمی کے لئے 2 کمپنیاں تکنیکی دیوالیہ پن کا شکار ہیں۔ گیس چوری یا ضائع ہونے کی شرح بیس فیصد تک پہنچنا بدانتظامی اور بدعنوانی کا عالمی ریکارڈ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر سال فراہم (سپلائی) کی جانے والی گیس کا تقریباً بیس فیصد چوری‘ لیک یا ڈسٹری بیوشن سسٹم میں خرابیوں کی وجہ سے ضائع ہو رہا ہے۔ گیس کے شعبے میں گردشی قرضہ اب تین ہزار ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔ ان اہم چیلنجوں کی روشنی میں‘ واضح ہے کہ گیس کی تقسیم کے شعبے کو درپیش نظام کی خرابیاں دور کرنے کیلئے اِن دونوں محکموں (سوئی ناردرن اور سوئی سدرن) کی نجکاری کی جائے۔ 4: پبلک سیکٹر انٹرپرائزز (پی ایس ایز) : سرکاری اداروں کو ’پی ایس ایز‘ کہا جاتا ہے جو سرکاری خزانے پر بوجھ ہیں اور یہ قومی خزانے کا بے دردی سے استحصال کر رہے ہیں مجموعی طور پر 210 سرکاری ادارے ہیں جو ”4 ہزار ارب روپے“ کے مقروض ہیں۔ ویت نام (ملک) کی مثال لی جائے جس نے اپنے ہاں 9 ہزار سرکاری اداروں کی نجکاری کی تو ایسا پاکستان کیوں نہیں کر سکتا اور کیوں نہیں کرنا چاہئے؟ 5: کموڈٹی آپریشنز: حکومت کے لئے خریداری کو ’کموڈٹی آپریشنز‘ کہا جاتا ہے۔ اِس عمل کیلئے قومی خزانے پر ”1300ارب روپے“ کے قرض کا بوجھ جمع ہو چکا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ ایسے سرکاری جو قومی خزانے پر مسلسل بوجھ ہیں تو ایسے اداروں کا بوجھ کیوں نہیں اتارا جا سکتا؟ 6: پی آئی اے: پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے) قومی ہوائی جہاز راں ادارہ ہے۔ جو حیرت انگیز بے ضابطگیوں کا مجموعہ ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک میں ایسے ادارے کی مثال نہیں ملتی جس پر ” سات سو پچاس ارب روپے“ کا قرضہ ہو اور اس کے کل اثاثے ”ایک سو پچاس ارب روپے“ ہوں! ظاہر ہے کہ ’پی آئی اے‘ کا قرض حکومت کو قومی خزانے سے ادا کرنا پڑے گا اور اگر ’پی آئی اے‘ کی نجکاری میں مزید تاخیر کی گئی اور حیل و حجت سے کام لیا گیا تو اِس کا قرض بڑھتا چلا جائے گا۔ درحقیقت زیرغور ’پی آئی اے‘ کی 
’نجکاری ہی واحد حل ہے‘ جس سے قومی خزانے پر پڑنے والے دباو¿ میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ 7: پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) : پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی فراہمی کا حکومتی ادارہ ’پی ایس او‘ مسلسل گردشی قرضوں کی وجہ سے بحران کا شکار ہے کیونکہ اس کے واجبات 800 ارب روپے تک پہنچ چکے ہیں۔ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) مارکیٹ میں قدم رکھنے کے بعد سے پی ایس او کے قرضوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے‘ جس نے اس کی مالی حالت کو خراب کر دیا ہے۔ اس بڑھتے ہوئے بحران سے جامع طور پر نمٹنے کے لئے‘ نجکاری کے ساتھ‘ پیٹرولیم مصنوعات کی مارکیٹ کو ڈی ریگولیٹ کرنا بھی ضروری ہے۔ توانائی کے شعبے میں مسابقت‘ کارکردگی اور پائیداری کے فروغ کے لئے حکمت عملی وضع کرنا وقت کی ضرورت ہے۔ پاکستان معاشی بہتری کی راہ دیکھ رہا ہے۔ عوام کی نظریں حکومت پر ٹکی ہوئی ہیں اور یہ گھڑی فیصلہ کن ایسی بڑی کاروائی کی متقاضی ہے جو اِس سے پہلے ملکی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی ہو۔ نجکاری ہی سرکاری اداروں کی نااہلیوں‘ بدانتظامیوں اور بدعنوانیوں کو ختم کرنے اور معاشی ترقی و استحکام (عوام کی خوشحالی) کا باعث ہو سکتی ہے۔ یہ وقت باتوں کا نہیں بلکہ عملی اقدامات (کاروائیوں) کا ہے کیونکہ اِس کے سوا (علاو¿ہ) کوئی چارہ نہیں رہا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)