ضروری ہے کہ انسانی زندگی کے اُن پہلوو¿ں پر گہرائی سے غوروفکر کیا جائے جو ہماری زندگیوں پر حاوی نظریات کا تعین کرتے ہیں۔ معاشرے کا حقیقت پسندانہ جائزہ لینا ضروری ہے اور یہ جائزہ ’سیاہ و سفید‘ کی طرح واضح بھی ہونا چاہئے اور صرف یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے ایک روشن خیال معاشرہ تشکیل دیا جا سکے گا۔ جب نظریات کا جائزہ لینے کی بات آتی ہے‘ تو اکثر لوگ ایک رائے یا معیار قائم کر لیتے ہیں اور پھر اُسی رائے یا معیار کے مطابق سوچتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں جاری مسلسل کشمکش متقاضی ہے کہ مختلف زاوئیوں سے صورتحال کا جائزہ لیا جائے۔تنقیدی سوچ ایک ایسی مہارت ہے جو مروجہ نظریات سے نمٹنے میں کام آتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہی لوگ جو بعض مشکوک نظریات کا پرچار کرتے ہیں وہ اکثر تنقیدی سوچ کا استعمال کرنے کی بھی بات کر رہے ہوتے ہیں اور معاشرے میں دانشورانہ سرگرمیوں کو محدود کرنے کے لئے اپنی بیان بازی میں بھی اکثر کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اُن کے لئے تنقیدی سوچ اُس وقت تک کارآمد ہوتی ہے جب تک وہ دوسروں کے نظریات پر سوال اُٹھائیں اُور تنقید برائے تنقید کی روش پر رہیں۔ ان کی عظمت کا وہم ان کی ’تنقیدی سوچ‘ کے دائرے سے باہر ہوتا ہے لیکن وہ دائرے کے اندر خود کو محدود کئے ہوتے ہیں۔ بنیادی طور پر ان کی کوشش دوسروں کے نظریات کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر کے اُنہیں روکنا ہوتا ہے کیونکہ اس قسم کی تنقیدی سوچ کو ’ففتھ جنریشن وار فیئر‘ کہتے ہیں‘ جو ایک تصوراتی حقیقت ہے۔سوال یہ ہے کہ تنقیدی سوچ کا استعمال کرتے ہوئے نظریات کا اندازہ کیسے لگاسکتے ہیں؟ سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ تنقیدی سوچ ذہنوں کے مو¿ثر استعمال کے بارے میں ہوتی ہے یقینا ہر کوئی اپنے دماغ کا استعمال کرتا ہے لیکن ہر کوئی مو¿ثر طریقے سے ایسا نہیں کر رہا ہوتا۔ یہ ایک علمی سرگرمی ہے جو ہم سے ذہانت یعنی ذہن کے بہتر استعمال کا مطالبہ کرتی ہے۔ سمجھنا چاہئے کہ ”ادراک“ ایسا عمل ہے جو تصورات اور خیالات کو سمجھنے کے لئے ہمارے تجربات‘ حواس اور خیالات کا استعمال کرتا ہے جس میں نظریات بھی شامل ہوتے ہیں۔ یہ تصورات اور عادات کے طرز عمل یا جذباتی طور پر انہیں اپنانے کے بجائے سوچ کے ذریعہ سیکھنے کا عمل ہے۔ زیادہ تر عقائد اور نظریات جو وسیع پیمانے پر قبول کئے جاتے ہیں وہ عام طور پر سیکھنے‘ سوچنے اور معلومات کا استعمال کرنے کے لئے ذہنی عمل یا حالت کے بجائے طرز عمل اور جذباتی وابستگی پر منحصر ہوتے ہیں۔ اس طرح کے عقائد ہمارے فیصلوں کو چلاتے ہیں اور ہمارے تخیل کو رنگ دیتے ہیں‘ جس کی وجہ سے ایسے فیصلے ہوتے ہیں جو غلط ہوسکتے ہیں۔ اس طرح کے عقائد اور نظریات کی اکثریت یادوں اور تصورات کا ایک خاص ڈھانچہ تشکیل دیتی ہے جو ہماری علمی اور فکری صلاحیتوں سے اپنی طاقت حاصل نہیں کرتی ہے۔ اگر ہم مہارت اور منطقی طور پر اپنی ذہانت کا اطلاق کریں تو اپنے آپ کو جھوٹ اور سچ میں تفریق کرنے کے قابل بنا سکتے ہیں۔ ایک کلید نظریات کے بارے میں درست سوالات پوچھنا بھی ہے۔ زیادہ تر نظریات اور بیانیے تصورات کو واضح طور پر بیان نہیں کرتے۔ آئیے نظم و ضبط‘ ایمان اور اتحاد جیسے اصولوں کو سمجھتے ہیں۔ شہری اور عسکری معاملات میں نظم و ضبط اچھا ہوتا ہے جیسا کہ ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی نہ کرنا‘ کاو¿نٹر پر قطار لگانا‘ ملاقات کے لئے وقت پر رپورٹ کرنا‘ اپنے سینئرز کے احکامات کی تعمیل یا وقت پر کھانا کھانا وغیرہ لیکن ہمیشہ ایسا نہیں کیا جاتا۔ بہت سے تخلیقی افراد اپنی ذاتی زندگی میں کسی بھی نظم و ضبط کی پیروی نہیں کرتے بلکہ اگر انہیں مخصوص اوقات میں جاگنے یا سونے پر مجبور کیا جائے تو ان کا دم گھٹنے لگتا ہے۔ نظم و ضبط کے نام پر احکامات کی تعمیل معاشرے کے لئے تباہ کن بھی ہوسکتی ہے۔ ماضی میں پاکستان میں آئین کی زیادہ تر خلاف ورزیاں ایک مخصوص چین آف کمانڈ کے تحت نظم و ضبط کی سختی سے پاسداری کی وجہ سے ہوئیں۔ بدنام زمانہ بھٹو کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ آف پاکستان کا حالیہ فیصلہ واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح جنرل ضیاءالحق کے دور میں انتہائی نظم و ضبط والی ریاستی مشینری نے ملزم کو ان کے منصفانہ ٹرائل اور مناسب عمل سے محروم رکھا۔ نظم و ضبط کے بعد‘ اہم سوالات پوچھ کر تبادلہ خیال کر سکتے ہیں۔ نظریہ زیادہ تر وہ ہوتا ہے جس کی ہم اپنی خاندانی روایات سے پیروی کرتے ہیں اور زیادہ تر لوگوں کے لئے یہ وراثت میں ملتا ہے۔ تو کسی ایسے شخص کے بارے اکثریتی رائے کیا ہونی چاہئے جو اکثریت کے مقابلے مختلف نظریات کے ماحول میں پیدا ہوا ہو؟ تیسری چیز اتحاد ہے۔ یہ بھی اتنا ہی پرکشش ہے جتنا کہ نظم و ضبط اور نظریات۔ اتحاد بہت سے معاملات میں دشمن کے خلاف طاقت کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر نذیر محمود۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
یہ انفرادیت کو کچل سکتا ہے کیونکہ کوئی چاہے یا نہ چاہے لیکن اُسے ملی وحدت میں اتحاد کے اصولوں کے مطابق عمل کرنا پڑتا ہے۔حال ہی میں دیکھا گیا کہ مشرق وسطیٰ میں جنگی جرائم پر احتجاج کرتے ہوئے ایک امریکی فوجی نے خودسوزی کی کوشش کی۔ یہ ایک انتہائی اقدام تھا جس پر عمل کرنے کے لئے اُس نے قومی اتحاد کو ضروری نہیں سمجھا۔ اِسی طرح روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کے خلاف بھی ایسے ہی ردعمل دیکھنے میں آئے جب روس کے عوام نے اتحاد کا مظاہرہ کیا۔ ہم نے ابھی جو کچھ کیا ہے وہ اس بات کی مثال ہے کہ کس طرح کسی دلیل کے مختلف پہلوو¿ں کا تجزیہ کرکے عام طور پر پائے جانے والے نظریات کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ ہمارے نتائج منصفانہ یا عالمگیر طور پر قابل اطلاق نہیں ہوسکتے لیکن یہ تنقیدی سوچ کا مظہر ہوتے ہیں۔ جب ہم اپنی سوچ کے بارے میں سوچنا شروع کرتے ہیں تو اِس سے تبدیلی آتی ہے اور یہی تبدیلی معاشرے کی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اصطلاحاً اِسے ”میٹا تھنکنگ“ کہا جاتا ہے اور اگر معاشرے کو سوچنے کی آزادی دی جائے اور سوچ سے پیدا ہونے والے نتائج کا مطالعہ کیا جائے تو قومی امور پر اتحاد و اتفاق اور نظم و ضبط کا حصول عملاً اور بآسانی ممکن بنایا جا سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔