کسی دھات کے انتہائی باریک ذرات کو ’نینو میٹریل‘ کہا جاتا ہے۔ ان باریک ذرات کی لمبائی یا موٹائی ایک نانومیٹر سے کم ہوتی ہے۔ ’نینو میٹریلز‘ تیزی سے ابھرتی ہوئی صنعت ہے جس کا استعمال الیکٹرانکس اور زراعت سے لے کر ادویات اور دفاعی صنعت تک مصنوعات میں ہو رہا ہے‘ نینو ٹیکنالوجی کا انحصار اس دریافت پر ہے کہ جب مواد ایک سے ایک سو نینو میٹر ہو۔ ذہن نشین رہے کہ یہ موٹائی انسانی بالوں کی چوڑائی سے کئی ہزار گنا کم ہے۔ سائنسدان یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ہیں کہ جب کسی دھات کے ذرات کو باریک بنایا جاتا ہے تو ان کی کارکردگی یا خصوصیات میں فرق نہیں آتا بلکہ وہ پہلے سے زیادہ بہتر خصوصیات کا مظاہرہ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ جیسے جیسے کسی مواد کا سائز کم ہوتا ہے‘ اس کی سطح پر واقع ایٹموں کا تناسب نمایاں طور پر بڑھ جاتا ہے‘ جس کے نتیجے میں سطح کے رد عمل میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ طریقہ تقریباً پانچ دہائیاں پہلے دریافت کیا گیا اور اس کے بعد سے اس شعبے میں تحقیق کا عمل تیزی سے جاری ہے۔ پاکستان میں نینو ٹیکنالوجی میں تحقیق و ترقی کا آغاز راقم الحروف نے اس وقت کیا‘ جب میں سال دوہزاردو میں وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی تھا اور بعد
میں بطور ہائر ایجوکیشن کمیشن چیئرپرسن بھی اس شعبے کی توسیع کیلئے نینو سائنس اور ٹیکنالوجی سے متعلق قومی کمیشن (این سی این ایس ٹی) قائم کیا۔ بین الاقوامی شہرت کے حامل سائنسدان اور پنسٹیک کے سابق ڈائریکٹر جنرل پروفیسر این ایم بٹ کو کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا اور تعلیمی اداروں اور صنعت کیلئے درکار تربیت یافتہ افرادی قوت تیار کی گئی۔ این سی این ایس ٹی کی کوششوں سے حکومت پاکستان نے وزارت سائنس و ٹیکنالوجی اور ایچ ای سی کے ذریعے سال دوہزار تین سے دوہزارآٹھ تک تین یونیورسٹیوں اور دو تحقیقی مراکز بنائے جہاں نینو ٹیکنالوجی کے تحقیقی منصوبوں کیلئے تقریباً کروڑوں روپے کی مالی اعانت فراہم کی۔ یہ پاکستان میں اس شعبے کا آغاز تھا۔ حال ہی میں‘ راقم الحروف نے لطیف ابراہیم جمال کی توجہ اس شعبے کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور اس کے نتیجے میں لطیف ابراہیم جمال نینو ٹیکنالوجی سینٹر حسین ابراہیم جمال فاو¿نڈیشن کی شاندار گرانٹ سے جامعہ کراچی میں واقع انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولوجیکل سائنسز قائم کیا گیا جہاں جدید ترین سہولیات موجود ہیں اور یہ اس تیزی سے بڑھتے ہوئے شعبے میں نینو فارماسیوٹیکل اور دیگر نینو میٹریلز کے مختلف سرحدی شعبوں میں جدید تحقیق کر رہا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی تقریباً ہر شعبہ¿ زندگی کا احاطہ کر رہی ہیں۔ زراعت میں‘ نینو ٹیکنالوجی فصلوں کی پیداوار بڑھانے‘ ماحولیاتی اثرات کم کرنے اور غذائی تحفظ بہتر بنانے کیلئے جدید حل پیش کرتی ہیں۔ نینو ذرات اور نینو کھادوں جیسے نینو میٹریلز کو آہستہ آہستہ غذائی اجزا¿ کا حصہ بنانے کیلئے تیار کیا جاسکتا ہے‘ اس طرح پیداوار بہتر بنائی جا سکتی ہے اور کم کھاد کا استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نینو فلٹریشن آلات پانی کی بچت کے ساتھ فراہمی کرسکتے ہیں‘نینو سینسر مٹی کی حالت‘کیڑوں سے بچاو¿ اور پودوں کی صحت کی نگرانی ممکن بناتے ہیں‘ جس سے درست انتظام کے طریقوں کو آسان بنایا جاتا ہے۔ نینو ٹیکنالوجی بہتر افادیت اور ماحولیاتی زہریلا پن کم کرنے کے ساتھ نینو کیڑوں کی ترقی
میں بھی حصہ ڈالتی ہے‘ جو پائیدار کیڑوں کے انتظام کی حکمت عملی ہے۔ الیکٹرانکس کی صنعت میں نینو ٹیکنالوجی نے گویا انقلاب برپا کر رکھا ہے‘ جس کے نتیجے میں الیکٹرانک اجزاءکو چھوٹا کر دیا گیا ہے اور یہ بہتر خصوصیات کے ساتھ کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں طب کے شعبے میں‘ نینو ٹیکنالوجی تشخیص‘ علاج اور ادویات کی فراہمی میں انقلاب لائی ہوئی ہے۔ نینو ذرات سے مخصوص خلیوں یا ٹشوز کا علاج کیا جاتا ہے اور اس سے علاج کے ضمنی اثرات بھی کم ہوتے ہیں۔ نینو میڈیسن کے طریقوں‘ جیسا کہ نینو پارٹیکل پر مبنی امیجنگ کنٹراسٹ ایجنٹس اور ٹارگٹڈ ڈرگ ڈلیوری سسٹم‘ کینسر کے ذریعے دل کی خرابی اور اعصابی بیماریوں کی ابتدائی تشخیص ممکن ہو چکی ہے۔ نینو ٹیکنالوجی سے اعلیٰ کارکردگی والی بیٹریوں‘ ایندھن اور شمسی خلیوں کی کارکردگی بہتر بنائی گئی ہے اور یہ مو¿ثر طریقے سے توانائی سٹوریج کرنے اور اس کی فراہمی کو ممکن بناتے ہیں۔ نینو ٹیکنالوجی آلودگی پر قابو پانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ (مضمون نگار وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بانی و چیئرمین رہے ہیں۔ بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عطا الرحمان۔ ترجمہ اَبواَلحسن امام)