قرضوں کے بوجھ تلے دبے بہت سے ممالک کی طرح مصر کو بھی ایک بار پھر معاشی چیلنجز کا سامنا ہے‘ جس سے پاکستان نہ صرف بخوبی واقف ہے بلکہ اگر چاہے تو اِس سے سبق بھی سیکھ سکتا ہے۔ ستمبر دوہزارتیئس تک مصر کے بیرونی قرضوں اور جی ڈی پی کا تناسب بیالیس فیصد سے تجاوز کر گیا تھا اور غیر ملکی ذخائر میں پینتیس ارب ڈالر کی کمی کے پس منظر میں قلیل مدتی واجبات چالیس ارب ڈالر کے قریب تھے۔ مشرق وسطیٰ کی صورتحال اور بحیرہ احمر کے اتار چڑھاو¿ نے اِس صورتحال کو مزید گھمبیر کردیا‘ جس سے سیاحت اور نہر سوئز کی آمدنی جیسے اہم غیر ملکی زرمبادلہ کی لائف لائنز خطرے میں پڑ گئیں۔ سال دوہزاربائیس و تیئس میں مشکلات کے باوجود سیاحت کے شعبے نے اتنی خراب کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کیا اور اس کی آمدنی 13.6 ارب ڈالر رہی۔ بہرحال‘ بحیرہ احمر میں ہنگامہ آرائی اور نہر سوئز کی وصولیوں میں شدید کمی کی وجہ سے افراط زر کا بڑھتا ہوا خطرہ پیدا ہوا‘ جو جنوری دوہزارچوبیس میں پچھلے سال کے مقابلے میں آدھا رہ گیا اور جس سے ممکنہ تجارتی خلل اور قلت پیدا ہوئی۔ارجنٹائن کے بعد بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے دوسرے سب سے بڑے مقروض ملک مصر نے ایک بار پھر آئی ایم ایف سے مدد طلب کی جس کا نتیجہ گزشتہ ہفتے اسٹریٹجک بحران کی صورت میں نکلا۔ مذکورہ معاہدہ‘ جس کا مقصد مصر کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا دینا تھا‘ قرضوں کی واپسی یقینی بنانا‘ قیمتوں میں استحکام کے لئے معاشی ازسرنو ترتیب اور ساختی اصلاحات کے ذریعے نجی شعبے کی قیادت میں ترقی کے عمل کو تیز کرنا تھا۔ آئی ایم ایف اور مصر کے درمیان طے پانے والی اہم شرائط و ضوابط میں شرح تبادلہ کی اصلاح شامل ہے۔ اِن میں مانیٹری اور مالیاتی پالیسی کو سخت کرنا‘ بشمول بجٹ کے علاو¿ہ اخراجات پر قابو پانا اور بنیادی ڈھانچے کے اخراجات کو دوبارہ ترتیب دینا‘ تکافل اور کراما جیسے نقد رقومات کی منتقلی کے پروگراموں کی توسیع کے ذریعے مالی طور پر کمزور گھرانوں کی مدد اور سرکاری و نجی شعبے کو متوازن کرتے ہوئے ریاستی اثرات کم کرنا اور نجی شعبے کی معاشی ترقی میں بہتر کردار ادا کرنے کی صلاحیت کو مضبوط بنانا شامل ہیں۔ دسمبر 2022ءسے تین ارب ڈالر کی توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کی بنیاد پر یہ معاہدہ آٹھ ارب ڈالر کی لائف لائن میں تبدیل ہوگیا‘ جس میں ماحولیاتی استحکام کی کوششوں کے لئے مختص 1.2 ارب ڈالر کی قسط بھی شامل ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سابقہ انتظامات کے تحت‘ مصر کو مارکیٹ پر مبنی ایکس چینج ریٹ کو نافذ کرنے‘ ریاستی اثاثوں کو ختم کرنے اور فوج کے معاشی اثر و رسوخ کو کم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا جس کی وجہ سے ابتدائی طور پر مارچ دوہزارتیئس کے لئے طے شدہ دوہزاربائیس کے ای ایف ایف کے پہلے جائزے میں تاخیر ہوئی۔ مذکورہ آئی ایم ایف معاہدے کے متوازی‘ مصر نے متحدہ عرب امارات کے خودمختار فنڈ اے ڈی کیو کے ساتھ معاہدہ کیا‘ اس اقدام کو حزب اختلاف نے تنقید کا نشانہ بنایا لیکن اس نے گھریلو معیشت میں اہم لیکویڈیٹی کو منتقل کیا۔ راس الحکمہ کی ساحلی ترقی کے لئے تیئس فروری کو طے پانے والے پینتیس ارب ڈالر کے معاہدے میں نہ صرف چوبیس ارب ڈالر کی زمین کا حصول شامل ہے بلکہ مصر میں متحدہ عرب امارات کے پہلے سے موجود مرکزی بینک کے ذخائر سے گیارہ ارب ڈالر کی اسٹریٹجک ری الاٹمنٹ بھی شامل ہے۔ اس یادگار سرمایہ کاری سے مزید ڈیڑھ سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری متوقع ہے‘ جس سے راس الحکمہ کے متحرک معاشی گٹھ جوڑ میں تبدیل ہونے کا امکان ہے‘ جس سے روزگار میں اضافہ ہوگا اور ترقی کو فروغ ملے گا۔ اس کے نتیجے میں مصری پاو¿نڈ کی قدر تیس فیصد کی شرح سے گھٹ کر پچاس پاو¿نڈ فی ڈالر ہو گئی‘ جو اپریل دوہزاربائیس کے بعد سے پانچویں مرتبہ ہونے والی گراوٹ ہے جبکہ کرنسی کی بلیک مارکیٹ کی شرح ستر فیصد تک پہنچ گئی۔ مصر کے مرکزی بینک نے بھی راتوں رات قرض دینے کی شرح میں چھ سو پوائنٹس (سود) کا اضافہ کرتے ہوئے اسے شرح سود 28.25 فیصد کر رکھی ہے۔
(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر عابد قیوم سلہری۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اس مالی بحالی اور متحدہ عرب امارات کے سرمائے کے انجکشن نے مصر کے اندر ایک خاص رد عمل کو جنم دیا ہے اگرچہ حکومت ان پیشرفتوں کو موجودہ میکرو اکنامک بدحالی کا علاج قرار دے رہی ہے لیکن سول سوسائٹی اختلافات کا شکار ہے جسے سماجی تحریکوں‘ این جی اوز اور قانونی حلقوں کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا ہے‘ جو مصر کے صدر کو ملک کے قدیم ساحلوں کو فروخت کرنے پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ اِس تنقید کے باوجود اماراتی سرمایہ کاری کی ابتدائی قسط دس ارب ڈالر دی گئی ہے اور توقع ہے کہ یہ رقم اگلے دو ماہ میں پوری ادا کر دی جائے گی‘ جس سے روپے کی قدر میں کمی کے منفی اثرات میں بھی کمی آئے گی اور اِس سے بینکاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں بھی کم ہوں گی اور ترسیلات زر کے بہاو¿ میں آسانی پیدا ہوگی۔ مصر اور پاکستان کی معاشی کہانیاں‘ خاص طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ان کے معاہدوں میں بہت سے قدریں مشترک ہیں۔ پاکستان آئی ایم ایف کا چوتھا سب سے بڑا قرض دہندہ ہے۔ پاکستان اُور مصر‘ دونوں ممالک کو قرضوں کی وجہ سے معاشی مشکلات اور اِن قرضوں کے معیشت پر منفی اثرات کا سامنا ہے۔ مصر کے تجربے سے دو اہم سبق سامنے آتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری کی مدد کرنے کی خواہش اکثر جغرافیائی سیاسی پہلوو¿ں سے بھری ہوتی ہے۔ دوسرا‘ معاشی خودمختاری کم ہو جاتی ہے۔ جغرافیائی سیاسی کشمکش اور مشکل معاشی انتخاب کے امتزاج کے ساتھ مصر کی کہانی پاکستان کو بین الاقوامی مالیات اور قومی پالیسی سازی کے پیچیدہ باہمی تعلق پر غوروفکر کرنے کی دعوت دے رہی ہے اب جبکہ پاکستان معاشی بحالی کی راہ پر گامزن ہے تو مصر کی آئی ایم ایف سے متعلق وسیع تر اقتصادی حکمت عملی سے حاصل ہونے والی بصیرت جامع اور کثیر الجہتی نقطہ نظر رکھتی ہے‘ جسے پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔