نئی حکومتیں وفاقی اور صوبائی دونوں سطحوں پر ذمہ داریاں سنبھال چکی ہیں تو نظریں ملک کو درپیش چند اہم چیلنجز اور فوری خطرات پر ٹکی ہوئی ہیں۔ اِن چیلنجوں میں معاشرتی تقسیم‘ معاشی عدم استحکام‘ آب و ہوا کی تبدیلی‘ بے روزگاری‘ افراط زر (مہنگائی) اُور قومی سلامتی جیسے خطرات نمایاں ہیں‘ ملک کو غلط معلومات پھیلنے جیسے چیلنج کا بھی سامنا ہے جس کی وجہ سے حکومت اور عوام کے درمیان عدم اعتماد کی خلیج حائل رہتی ہے۔ ڈبلیو ای ایف گلوبل رسک رپورٹ میں اِس بات کو اجاگر کیا گیا ہے۔ دوسری جانب پاکستان نئے جغرافیائی سیاسی تناو¿ کا بھی سامنا کر رہا ہے جس سے بیرونی سفارتکاری کے بارے میں قومی نقطہ نظر کا از سر نو جائزہ لیا جاتا ہے۔ اِس نازک دور میں‘ قومی قیادت کو فعال طور پر کمزوریوں کا جائزہ لینا چاہئے‘ بدلتی ہوئی حرکیات سے ہم آہنگ رہنا چاہئے‘ خطرات کم کرنے کےلئے اپنے فریم ورک اور حکمت عملی کو مضبوط بنانا چاہئے‘ تاکہ ملک کی نوجوان آبادی کی توقعات پر پورا اترا جا سکے۔ پاکستان کا نوجوان محسوس کر رہا ہے کہ سیاسی عمل میں ان کی رائے کی مناسب توجہ اور نمائندگی نہیں مل رہی جس کی وجہ سے محرومی اور مرکزی دھارے کی سیاست سے لاتعلقی کے احساسات پیدا ہو رہے ہیں۔ بے روزگاری کی بلند شرح اور محدود معاشی مواقع اپنی جگہ نوجوانوں کےلئے اضافی پریشانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ اِن چیلنجوں سے نمٹنے کےلئے سیاسی نظام میں شفافیت‘ احتساب اور شمولیت کے فروغ کی ضرورت ہے۔ اس کےلئے نوجوانوں کو بااختیار بنانے اور اُن کی حوصلہ افزائی کرنے کےلئے اقدامات کی بھی ضرورت ہے ‘ پاکستان کو جس مدد کی ضرورت ہے وہ مالی امداد اور قرضوں سے آگے بڑھ کر اور شاید زیادہ براہ راست غیر ملکی سر مایہ کاری ‘ گرین انفراسٹرکچر اور صنعتی ترقی و ٹیکنالوجی پر مبنی محفوظ ماحول پر مشتمل ہونا چاہئے۔ یہ سب حاصل کرنے کےلئے نئی حکومت کو بیرون ملک اپنے دوستوں اور شراکت داروں کی طرف دیکھنا ہوگا اِس وقت چین ایک ایسا شراکت دار ہے جس پر پاکستان بھروسہ کر سکتا ہے۔ عام انتخابات کے بعد کے منظرنامے پر حالیہ بیان میں چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ ”چین پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ بات چیت کے لئے تیار ہے ‘ چین پاکستان کے ساتھ باہمی خوشحالی و ترقی کےلئے مل کر کام کر رہا ہے اور چین کی نظر میں یہ بھی ضروری ہے کہ ”تمام اسٹیک ہولڈرز ترقی کی راہ ہموار کرنے کےلئے سیاسی ہم آہنگی کو ترجیح دیں“ لیکن جب پاکستان کی داخلی صورتحال کو دیکھا جاتا ہے تو ہمیں یہ بات واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ چین کس طرح اور کن شعبوں میں پاکستان کی فوری مدد کرسکتا ہے‘سکیورٹی خدشات کے باوجود کسی ملک میں سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کےلئے اسٹریٹجک اور کثیر الجہتی نقطہ نظر کی ضرورت ہوتی ہے جس کےلئے حکومت کی مکمل حکمت عملی ہی کام کر سکتی ہے؛گزشتہ دس برس میں چین پاکستان اقتصادی راہدای (سی پیک) منصوبے کے ذریعے چین نے پاکستان کی مدد کی ہے ‘ سی پیک سے پاکستان نے نمایاں فوائد حاصل کئے ہیں۔ سی پیک سے 2 لاکھ سے زیادہ روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں‘ 6 ہزار میگاواٹ بجلی کی پیداوار میں مدد ملی ہے اور 500 کلومیٹر سے زیادہ سڑکوں کی تعمیر ہوئی ہے‘ جس سے دیہی و شہری ہم آہنگی اور علاقائی رابطے کو فروغ ملا ہے۔ قابل ذکر ہے کہ 230 ملین ڈالر کی چینی گرانٹ سے چلنے والے گوادر ہوائی اڈے کی تکمیل سے علاقائی رابطوں کو مزید تقویت ملے گی۔ تاہم بار بار آنے والا مسئلہ چینی نجی کاروباری اداروں کو راغب کرنے میں ناکامی کا رہا ہے بظاہر غیر ملکی نجی شعبے کے کاروباری اداروں کے لئے سازگار ماحول کی عدم موجودگی اور موجودہ صلاحیت و سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں ہو پا رہا۔ اِس کی واضح مثال سماجی شعبے کی ترقی میں ایک ارب ڈالر کی چینی گرانٹ کا استعمال نہ ہونا ہے۔ متعلقہ کاموں کو انجام دینے کے لئے ”مشترکہ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی)“ قائم کیا گیا اور سی پیک کے تحت شروع کئے گئے ایس ای زیڈز کی غیر مساوی ترقی ہے۔ اسی طرح ’سی پیک بزنس کونسل‘ کی جانب سے بھی محدود رابطے رہے ہیں جو بہت سی توقعات کے ساتھ قائم کی گئی تھی۔ اس طرح‘ اہم وسائل رکھنے کے باوجود‘ چینی کاروباری اداروں کو پاکستان منتقل ہونے میں چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے اور انہوں نے بنگلہ دیش‘ لاو¿س اور ویت نام کو ترجیح دی ہے۔ اِن چیلنجز سے نمٹنے کےلئے وفاقی اور صوبائی حکومتوں سمیت مختلف اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ساتھ بزنس چیمبرز کے درمیان مو¿ثر تعاون کی ضرورت ہے تاکہ اِن مسائل کو اجتماعی طور پر حل کیا جا سکے تاکہ چینی کاروباری اداروں کی جانب سے پاکستان کی معیشت میں انضمام اور سرمایہ کاری کو زیادہ آسان بنایا جا سکے اگرچہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف‘ سے متعلق معاملات ’سی پیک‘ کی پیش رفت کو مزید سست کر سکتے ہیں لیکن ایسے کئی شعبے ہیں جن میں قرضوں سے متعلق بیانیے کے باوجود فوری طور پر چینی مدد حاصل کی جاسکتی ہے‘ جس کا آغاز ترجیحی ایس ای زیڈز (بشمول کراچی اسٹیل ملز ایریا اور اسلام آباد زون) کی فوری ترقی میں مدد کی صورت سے ہو سکتا ہے جہاں منافع کی توقعات‘ پالیسی کا تسلسل اُور یوٹیلیٹیز سے متعلق خطرات سرمایہ کاری کی راہ میں حائل رکاوٹیں اُور بنیادی خدشات ہیں۔ اِس کا آغاز موجودہ چینی سرمایہ کاروں کے ساتھ رابطوں کو بحال رکھنے اور مارکیٹ کے حالات‘ ریگولیٹری تبدیلیوں اور کسی بھی پیش رفت کے بارے میں باقاعدگی سے اپ ڈیٹ فراہم کرکے تجارتی تعلقات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے (اِس سلسلے میں آل پاکستان چائنیز انٹرپرائزز ایسوسی ایشن کے ساتھ بات چیت ہونی چاہئے)۔معاشی چیلنجز کے باوجود پاکستان سرمایہ کاری کے لئے منافع بخش مقام ہے۔ چین کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لئے ”پاکستان میں سرمایہ کاری“ کے نعرے کو فروغ دینا بہت ضروری ہے۔ موجودہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے سے مزید سرمایہ کاروں کو متوجہ کیا جا سکتا ہے۔ اِسی سلسلے میں چین کے ساتھ ’جوائنٹ کوآپریشن کمیٹی (جے سی سی)‘ کا اِجلاس طلب کرنے کی بھی درخواست کر کے موجودہ منصوبوں کی تکمیل کے لئے قومی عزم اُور ضرورت کا اظہار ہونا چاہئے۔ زراعت‘ لائیو سٹاک‘ ٹیلی کمیونیکیشن‘ قابل تجدید توانائی‘ ٹیکسٹائل سمیت مخصوص شعبوں میں چین کو ترقیاتی منصوبے پیش کرنے اُور ایس ای زیڈ کی ترقی میں تعاون کی ضرورت سے آگاہ کرنا چاہئے تاہم اس سے قبل ضروری ہے کہ وزارت منصوبہ بندی‘ ترقی و اصلاحات (ایم او پی ڈی آر) میں سی پیک سیل یا اتھارٹی کو خاطرخواہ فعالبنایا جائے اور صوبائی سرمایہ کاری نوڈز کی استعداد کار میں بھی اضافہ کیا جائے اگرچہ فی الوقت کان کنی کے منصوبوں پر توجہ کو بعد کے مرحلے تک موخر کیا جاسکتا ہے لیکن سی پیک کے صنعتی تعاون کے فریم ورک اور توانائی کے شعبے میں ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن منصوبوں کے تحت آزاد جموں و کشمیر‘ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں میرین‘ فروٹ اور فوڈ پروسیسنگ زونز اور فارما انڈسٹریز کے قیام کے لئے فوری اقدامات ممکن ہیں۔ نئی حکومت چینی سیاحوں کے لئے خصوصی استثنیٰ متعارف کروا سکتی ہے جس کا مقصد اعتماد کو تقویت دینا ہے۔ ایک ایسے نقطہ نظر کی ضرورت ہے جس میں چینی سیاسی اور کاروباری اداروں کے ساتھ باقاعدگی سے بامعنی اور بروقت رابطے شامل ہوں۔ کیا چین مختصر اور طویل مدت میں پاکستان کو صنعتی تعاون اور شعبہ جاتی ترقیاتی معاونت فراہم کر سکتا ہے؟ اس کا واضح جواب ”ہاں“ ہے تاہم اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لئے پاکستان کو مکمل ہم آہنگی اور سیاسی عزم کے ذریعے موجود قدرتی وسائل سے فائدہ اٹھانا ہوگا۔( بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر حسن داو¿د بٹ۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
ax