نئی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کا منظرنامہ کیا ہوگا؟ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی جانب سے شہباز شریف کو وزیراعظم منتخب ہونے پر مبارکباد نے دونوں ممالک کے درمیان مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے قیاس آرائیوں کو جنم دیا ہے تاہم اس موقع پر دیا جانے والا پیغام ماضی میں دیئے گئے پیغامات کے مقابلے مختصر تھا کیونکہ اس میں تعلقات بہتر بنانے کے حوالے سے کسی خواہش کا اظہار نہیں کیا گیا جبکہ وزیراعظم شہبار شریف کا جواب بھی مختصر رہا۔ پاک بھارت تعلقات کی موجودہ پیچیدہ نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان روایتی پیغامات کے تبادلے سے کوئی بھی مطلب اخذ کرنا غلطی ہوگی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان سفارتی تعلقات اگست 2019ءسے تعطل کا شکار ہیں۔ جب بھارت نے اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے‘ غیرقانونی طور پر جموں اور کشمیر کی متنازع ریاست کے ساتھ الحاق کیا۔ رسمی مذاکرات اور امن عمل تو بھارت کی جانب سے بہت پہلے ہی معطل کیا جاچکا تھا لیکن بھارت کے اگست 2019ءکے مذکورہ غیرقانونی اقدام کے نتیجے میں مقبوضہ وادی پر طویل عرصے کےلئے لاک ڈاو¿ن اور پابندیاں لگائیں جس نے پاکستان کو تجارت معطل کرنے اور اپنے ہائی کمشنر کو وطن واپس بلا کر سفارتی تعلقات منقطع کرنے پر مجبور کیا۔ پاکستان نے فیصلہ کیا کہ بھارت کی جانب سے اگست دوہزاراُنیس کے الحاق کے فیصلے کو واپس لینے پر ہی مذکرات بحال ہوسکتے ہیں۔ بھارت نے کسی بھی بات چیت میں دلچسپی نہیں دکھائی بلکہ اس کے بجائے اس نے کشمیر میں اپنی جابرانہ پالیسیاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری رکھیں تاہم سال دوہزاربیس اکیس میں بیک چینل روابط کی وجہ سے کسی حد تک برف پگھلنے کی امیدیں پیدا ہوئیں۔ یہی وجہ تھی کہ فروری دوہزاراکیس سے دوہزارتیئس کی مفاہمت کے تحت دونوں ہمسایوں میں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر برقرار رکھنے کے عزم کا اظہار کیا۔ یہ انتہائی اہم تھا کیونکہ محض دو سال قبل پلوامہ بالاکوٹ معاملہ (جس کا آغاز بھارت نے پاکستانی حدود میں ائر اسٹرائیک سے کیا) کی وجہ سے جوہری ہتھیاروں سے لیس دونوں ممالک تصادم کی نہج پر پہنچ گئے تھے۔ گزشتہ تین سال سے ’ایل او سی‘ پر جنگ بندی کے معاہدے پر عمل درآمد ہورہا ہے لیکن کشمیر سمیت کسی بھی معاملے پر بیک چینل بات چیت کی کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی جس سے دونوں ممالک کے درمیان بات چیت کی راہ ہموار ہوسکے اگرچہ عملی مسائل پر روابط ہوئے جیسے قیدیوں کی رہائی اور مذہبی مقامات کی زیارت کے لیے ویزوں کا اجرا¿ ہوا لیکن سفارتی تعلقات تعطل کا شکار رہے۔ جنوری دوہزارتیئس میں بطور وزیراعظم اپنے پہلے دورِ حکومت میں شہباز شریف نے کشمیر سمیت ’سنگین مسائل‘ کے لئے بھارت کے ساتھ ’سنجیدہ اور مخلصانہ مذاکرات‘ کرنے پر زور دیا۔ العریبیہ کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا تھا کہ پڑوسیوں کو امن کے ساتھ رہنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی مذاکرات کے لئے اپنی آمادگی کا بھی اظہار کیا۔ اس کے بعد کی گئی حکومتی وضاحت میں کہا گیا کہ اگست 2019ءکا اقدام واپس لینے تک بھارت کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوسکتے جس پر دہلی نے ردعمل دیا کہ بات چیت کے لئے ماحول سازگار نہیں۔ اس کے باوجود مئی 2023ءمیں وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے شنگھائی کارپوریشن کے سربراہی اجلاس میں شرکت کے لئے بھارت جاکر کچھ حد تک تعلقات میں بہتری کا موقع فراہم کیا لیکن یہ موقع بھی گنوادیا گیا کیونکہ دونوں ممالک کے نمائندگان میں دوطرفہ ملاقات نہیں ہوئی۔ پاکستان اُور بھارت کے درمیان تنازعات کی طویل فہرست میں پچھلے سال ایک اور تنازع کا اضافہ ہوا۔ یہ 1960ءمیں طے ہونے والا سندھ طاس معاہدہ تھا جو چھ دہائیوں تک دونوں ممالک کے درمیان جنگوں‘ تصادم اور تناو¿ کی زد میں رہا۔ دہلی نے سندھ طاس معاہدے کے حوالے سے جو مو¿قف اختیار کیا اس نے اس معاہدے کے مستقبل کے حوالے سے سوالات کھڑی کئے۔ سال دوہزارتیئس کے آغاز پر بھارت نے پاکستان کو سندھ طاس معاہدے میں تنازعات حل کرنے سے متعلق شقوں میں ترامیم کرنے کا عندیہ دیا۔ دریائے چناب اور جہلم پر بھارتی ہائیڈرو الیکٹرک منصوبوں جس کا اثر پاکستان کے دریاو¿ں پر پڑے گا‘ کے حوالے سے بھارت نے ہیگ میں ثالثی عدالت کی سماعت کا بھی بائیکاٹ کیا اور یہ معاملہ ابھی تک حل طلب ہے۔ اسی پس منظر میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اپریل اور مئی میں متوقع بھارتی انتخابات سے آغاز کیا جائے تو ہمیں کسی بھی سفارتی اقدام کے لئے انتخابی نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔ نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی اگر انتخابی مہم میں پاکستان پر الزام تراشی کا سہارا لیتی ہے تو اس سے ان کے ارادوں کا اندازہ ہوجائے گا۔ انتخابی بیان بازی کو ایک جانب رکھیں تو بھارت پہلے ہی واضح کرچکا ہے کہ پاکستان کے ساتھ کسی بھی دوطرفہ بات چیت میں کشمیر موضوع نہیں ہوگا اور نہ اس پر مذاکرات ہوں گے۔ متضاد بھارتی مو¿قف کے پیش نظر‘ شہباز حکومت کے لئے بھارت کے ساتھ بات چیت انتہائی سنگین چیلنج بن جائے گا۔ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے حوالے سے دو نقطہ نظر ہیں۔ پہلا یہ ہے کہ پاکستان کو کشمیر کے تنازع کو ایک جانب کرکے تجارت اور ہائی کمشنر کی سطح پر سفارتی تعلقات بحال کرنے چاہئیں تاہم یہ اس بات پر منحصر ہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ رسمی مذاکرات بحال کرنے کے لئے کتنا سنجیدہ ہے اور دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ اس طرح کے مذاکرات مکمل طور پر بھارت کی شرائط پر ہوں گے جس کا مطلب کشمیر کو چھوڑنا اور اگست دوہزاراُنیس کے اس کے اقدام کو غیر اعلانیہ طور پر تسلیم کرنا ہوگا۔ ( بشکریہ ڈان۔ تحریر ڈاکٹر ملیحہ لودھی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
بھارت طویل عرصے سے تنازعات حل کئے بغیر ہی پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات معمول پر لانا چاہتا ہے۔ بھارت کی شرائط پر مذاکرات کا مطلب یہی ہوگا کہ پاکستان اپنے دیرینہ دعوو¿ں سے دستبردار ہو جائے اور کسی بھی حکومت کے لئے عوام کو اس پر رضامند کرنا انتہائی مشکل ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ کیا ان دو نظریات یا آپشنز یعنی دوطرفہ تعلقات کی بنیاد پر اور کشمیر کی اصولی اور قانونی حیثیت پر سمجھوتہ کئے بغیر‘ کوئی درمیانی راستہ نکل سکتا ہے؟ جوہری طاقت رکھنے والے دو ممالک کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کی ضرورت سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ تناو¿ اور غلط فہمیاں کم کرنے کے لئے پاک بھارت تعلقات معمول پر آنے چاہئیں۔ (مضمون نگار امریکہ‘ برطانیہ اور اقوام متحدہ میں بطور سفارتکار پاکستان کی نمائندگی کر چکی ہیں۔