چند برس پہلے کی بات ہے جب ایک بھارتی صابن کا تشہیری کلپ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ کلپ میں دیکھا گیا کہ ’مثالی‘ بھارتی بہو اپنے شوہر کے لیپ ٹاپ کو ڈٹرجنٹ سے دھو رہی ہے اور اِسے اچھی طرح سے دھو کر کپڑوں کی طرح رسی پر لٹکا بھی دیتی ہے۔ جیسے ہی وہ اپنے اِس کام کو مکمل کرتی ہے تو اُس کا شوہر گہرے صدمے اور حیرت میں ڈوبا ہوا نظر آتا ہے لیکن اِس کہانی اور منظرنامے کے بعد کا ردعمل ناظرین کی سوچ کے لئے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا سے صحافت تک کی دنیا فرض کی گئی معلومات کی بنا پر بنائے جانے والے مواد کو ”جعلی خبریں“ کہا جاتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر جن لوگوں نے فرضی معلومات اور اِس سے جنم لینے والی جعلی خبروں سے نمٹنا ہوتا ہے اُن کی اکثریت انٹرنیٹ کی مسلسل بدلتی ہوئی دنیا کو سمجھنے اور عدم دلچسپی کی بنا پر انٹرنیٹ کی تیزی سے بدلتی دنیا کا پیچھا کرنے سے قاصر ہے۔ تجربہ کار صحافیوں میں ایک چیز مشترک ہے کہ وہ یہ بات جانتے ہیں کہ زیادہ تر نوجوان سوشل میڈیا ایپس‘ ٹک ٹاک یا فیس بک پر دی جانے والی معلومات کے مستند ذرائع نہیں دیتے اور اُن کے لئے معلومات دینا محض تفریحی عمل ہوتا ہے لیکن اِس کے باوجود بھی غیرمستند معلومات سے استفادہ کیا جاتا ہے اور اب تو یہ تعجب کی بات بھی نہیں رہی۔ سال دوہزاربائیس میں کئے گئے ایک مطالعے کے مطابق‘ زیادہ تر صارفین کسی معلومات تک پہنچنے کے بعد اُس کی تصدیق کے لئے محنت نہیں کرتے اور کسی پہلے ذریعے سے ملنے والی معلومات ہی پر یقین یا اکتفا کر لیتے ہیں جبکہ انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی جانچ کرنے کے اصول اور طریقہ¿ کار موجود ہے۔آج کی دنیا میں ایک ایسی نسل (جسے جنریشن زیڈ بھی کہا جاتا ہے) پیدا ہو چکی ہے جس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں آنکھ کھولی اور شعور میں پہنچنے سے قبل ہی اُنہوں نے انٹرنیٹ کا استعمال کرنا شروع کر دیا تھا۔ تعلیمی اداروں کی ایک ایسی قسم ایجاد ہو چکی ہے جس میں روایتی طریقوں سے درس و تدریس نہیں ہو رہی۔ نصابی کتب کی شکل و صورت بدل گئی ہے۔ اب سالہا سال نصاب نہیں پڑھایا جاتا۔ طلبہ کو انٹرنیٹ پر تحقیق کرنے کے ہنر سکھائے جاتے ہیں اور یہ دنیا میں نہ صرف معلومات کی تخلیق بلکہ اُس سے استفادہ اور معلومات کے تبادلے کا بھی بہت بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔جنریشن زیڈ کو ایسے صحافتی اداروں (میڈیا انڈسٹری) سے واسطہ ہے جسے تیزرفتار انٹرنیٹ کی دنیا میں اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے
لئے پے در پے حملوں کا سامنا ہے۔ صحافتی ادارے اپنے خلاف تنقید برداشت نہیں کرتے جبکہ انٹرنیٹ کی دنیا پسند و ناپسند کے گرد گھومتی ہے۔ دوہزار کی دہائی کے اوائل میں‘ جن طلبہ نے یہ دیکھا کہ پاکستان خودکش حملوں کی زد میں تھا اور ہر صبح‘ دہشت گردی کا شکار ہونے والوں کا شمار بڑھ رہا تھا تو اُس صورت میں درست معلومات دینے کی بجائے معلومات نہ دینے کو درست تسلیم کرتے ہوئے صحافتی اداروں نے اپنی ساکھ کا دفاع کیا۔ برسوں کے سفر میں یہ ہوا ہے کہ اب صحافتی اداروں کی جگہ صحافیوں کے برانڈز نے لے لی۔ سوشل میڈیا کی آمد کے ساتھ ہی صارفین اداروں کی بجائے صحافیوں سے براہ راست رابطہ کئے ہوئے ہیں۔ کسی بھی صحافی کو اپنا مو¿قف بطور تجزیہ پیش کرنے کے لئے صحافتی اداروں کی ’ادارہ جاتی پالیسی‘ کے مطابق بات کرنے کی ضرورت نہیں رہی اور اِس پورے عمل میں حقائق کی صداقت‘ شفافیت اور ساکھ یقینی بنانے کے لئے جانچ پڑتال متاثر ہوئی ہے۔ غلط رپورٹنگ میں شامل تمام فریقوں کے لئے اِس صورت میں ایک بحران پیدا ہوا ہے۔ ایک صحافی کو ادارے سے الگ ہو کر اپنا نام بنانے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ پاکستان میں جہاں کئی صحافیوں کو کسی ادارہ جاتی ٹیگ کی ضرورت نہیں رہی وہیں ابتدائی کیریئر کے صحافیوں نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کےلئے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا سہارا لے رکھا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ایمن صدیقی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
دنیا بھر میں متعدد آزاد صحافتی ادارے موجود ہیں جیسا کہ ”ڈیموکریسی ناو¿“ ہے اُور یہ امریکی ادارہ دنیا بھر میں طاقتور رپورٹنگ کے لئے جانا اور پہچانا جاتا ہے اور یوں انٹرنیٹ کی دنیا میں قابل اعتماد رپورٹنگ یقینی بنانے کے لئے پورا نظام فعال ہے لیکن سوشل میڈیا صارفین کو صحافتی اصولوں اور معلومات کی جانچ میں کی گئی محنت کی فکر نہیں ہوتی۔ وہ ایسی معلومات کو دیکھنا پسند کرتے ہیں جن میں معلومات کو سنسنی خیزی اور بنا تصدیق یا جانچ جاری کیا جاتا ہے۔ درحقیقت یہ ایک منفی عمل ہے کہ کوئی شخص انٹرنیٹ پر کچھ بھی پڑھے یا دیکھے اور اُس پر سچائی کے طور پر یقین کرتے ہوئے اُسے پھیلانے میں بھی کردار ادا کرے۔ فرضی معلومات سے تخلیق پانے والی ’جعلی خبروں‘ کا جواب حقیقی اور مصدقہ خبروں سے دیا جا سکتا ہے لیکن اِس سلسلے میں بہت ہی کم کوششیں دیکھنے میں آ رہی ہیں۔ اگر خبروں کے مندرجات اور اُن کی تشہیر کے تکنیکی پہلوو¿ں کے درمیان توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی جائے تو سچائی اور افسانے کے درمیان فرق کو بڑی حد تک واضح کیا جا سکتا ہے اُور اِس میں صحافتی اداروں‘ صحافیوں اور صحافتی تنظیموں کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہو کر‘ دانستہ و شعوری عملی کوششیں (محنت) کرنا ہوں گی۔