آبی تحفظ درپیش ’اہم ترین چیلنج‘ ہے جس کا تعلق قومی سلامتی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے ساتھ بھی جڑا ہوا ہے۔ ایک تحقیق میں ڈیوڈ براو¿ر نے زمین اور زمین کے وسائل کے ساتھ انسانوں کے تعلق اور برتاو¿ کے بارے میں حیرت انگیز اور دردناک انکشافات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ہم اپنے آباو¿ اجداد سے زمین کے وارث نہیں‘ ہم اسے قرض لیتے ہیں“ ایک ایسے دور میں جب موسمیاتی تبدیلی گلوبل ساو¿تھ میں تباہی مچا رکھی ہے اور پاکستان آٹھواں سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک ہے‘ پانی کے عدم تحفظ کا مقابلہ کرنے کے لئے واضح لائحہ عمل مرتب ہونا چاہئے تاکہ اس شعبے میں درپیش تنازعات کو کم کیا جا سکے۔پانی کی حفاظت وقت کی ضرورت ہے کیونکہ اس کا تعلق قومی سلامتی اور معاشرتی فلاح و بہبود جیسے امور سے جڑا ہوا ہے۔ قوم کی بقا اور خوشحالی میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اِس مسئلے سے زراعت‘ شہر و دیہی زندگی اور جغرافیائی سیاسی استحکام فوری اور براہ راست متاثر ہوتا ہے جس کی وجہ سے ماہرین اِسے شدید نوعیت کا حامل اور قابل توجہ مسئلہ قرار دیتے ہیں۔ پاکستان میں پانی کے مو¿ثر انتظام کی صرف حفاظت ہی نہیں بلکہ اِس کی ترقی بھی ضروری ہے۔ زرعی شعبہ‘ جو پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے‘ بنیادی طور پر سندھ طاس معاہدے کے تحت ملنے والے پانی کی مقدار پر انحصار کر رہا ہے۔ یہ انحصار نہ صرف آبپاشی اور خوراک کی پیداوار کے لئے بلکہ معاشی زندگی اور دیہی معاش کے لئے بھی کم ہے اور ضرورت اِس امر کی ہے کہ پانی کی دستیابی میں اضافہ کیا جائے لہٰذا پانی جیسے اہم وسیلے کی کمی صرف زرعی پیداوار کے لئے چیلنج نہیں رہی۔ اس سے پہلے ہی غذائی عدم تحفظ کا سامنا کرنے والے ملک کی معاشی بنیاد کو بھی براہ راست خطرہ لاحق ہے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ پاکستان سالانہ تقریباً 8 ارب ڈالر کی خوراک درآمد کرتا ہے اور اگر پانی کی دستیابی کی صورتحال بہتر نہ ہوئی تو پاکستان سے ہونے والی برآمدات میں کمی آئے گی۔پانی کی قلت کے مضمرات زراعت سے آگے تک پھیلے ہوئے ہیں‘ جس سے سماجی و اقتصادی چیلنجوں کا سلسلہ جاری ہے چونکہ آبی وسائل وقت کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو‘ جو اپنی روزی روٹی کے لئے زراعت پر انحصار کرتے ہیں بے مثل و بے مثال مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور چونکہ یہ مشکلات حل نہیں کی جا رہیں اور قومی فیصلہ سازی کے مراحل میں خاطرخواہ توجہ سے محروم ہیں اِس لئے دیہی علاقوں سے نقل مکانی کا باعث بن رہی ہیں‘ یعنی دیہی آبادی بہتر حالات زندگی اور روزگار کے زیادہ بہتر و پائیدار مواقعوں کی تلاش میں خشک علاقوں سے شہری مراکز کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔ اس طرح کی نقل مکانی سے شہری بنیادی ڈھانچے اور دستیاب وسائل پر دباو¿ پڑتا ہے‘ جس کی وجہ سے شہروں میں بھیڑ بھاڑ‘ ناکافی رہائشی سہولیات اور شہری پانی کی فراہمی کی مانگ میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے جبکہ شہروں میں پانی کی فراہمی پہلے ہی آبادی کے تناسب سے کم ہے۔ شہروں پر آبادی کے دباو¿ سے سماجی تناو¿ اور بدامنی کو بڑھا سکتا ہے کیونکہ گنجان آباد علاقوں میں وسائل کے حصول کے لئے تعلقات میں شدت آتی ہے۔ اِس سلسلے میں لاہور کی مثال لی جا سکتی ہے جہاں زیرزمین پانی کی مسلسل گرتی ہوئی سطح تشویشناک حد تک پہنچ چکی ہے جبکہ کراچی میں پانی کی قلت اور ٹینکر مافیا کی وجہ سے شہری پریشان ہیں۔آبی تحفظ کے حوالے سے پاکستان کی جدوجہد تین مراحل میں ہونی چاہئے ۔ مقامی‘ بین الصوبائی اور بین الاقوامی۔ مقامی سطح پر‘ برادریاں اکثر آبی وسائل تک رسائی اور تقسیم کو لے کر تنازعات میں گھری رہتی ہیں۔ خاص طور پر پنجاب اور سندھ کے درمیان بین الصوبائی تناو¿ دریائے سندھ سے پانی کی غیر مساوی تقسیم کے الزامات کے گرد گھومتا ہے۔ بین الاقوامی جہت پیچیدہ چیلنجز کو جنم دیتی ہے‘ جس کی مثال حال ہی میں پاکستان کی جانب سے افغانستان کے ساتھ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر بات چیت میں ناکامی ہے۔ کابل میں طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا ان کوششوں کو پیچیدہ بنائے ہوئے ہے جبکہ سندھ طاس معاہدے پر بھارت کے ساتھ بڑھتی ہوئی کشیدگی کب ختم یا کم ہوگی اِس بارے میں بھی کچھ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ذیشان صلاح الدین۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
پانی کے پائیدار انتظام کے لئے ہر سطح پر تعاون ضروری ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل جیسے بین الصوبائی ادارے ایسے تنازعات میں ثالثی اور پانی کی منصفانہ تقسیم کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور عدلیہ تنازعات کے حل میں مزید مدد کر سکتی ہے۔ طویل مدتی حکمرانی کے لئے ایک فریم ورک قائم ہونا چاہئے جو کالا باغ ڈیم کی تعمیر جیسے تکنیکی امور کا جائزہ لے۔ وفاقی سطح پر قومی پالیسی برائے آبی تحفظ کو ترجیح دینا ناگزیر ہو چکا ہے۔ اس میں پانی کے ذخیرے اور تقسیم کو بہتر بنانے کے لئے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری اور بین الاقوامی پانی کے مسائل کو حل کرنے کے لئے سفارتی کوششیں شامل ہیں۔ اس طرح کی کوششیں باہمی فائدے اور علاقائی استحکام کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔ پاکستان کو موجودہ موسمیاتی اور آبی تحفظ سے متعلق تنازعات سے نمٹنے اور مستقبل کے تنازعات جیسے دوہرے چیلنجز سے نمٹنا ہوگا۔ آب و ہوا کی تبدیلی‘ آبادی میں اضافہ اور شہروں کے مسائل میں پانی کی قلت سرفہرست رہنے کا امکان ہے‘ جس کی وجہ سے ممکنہ طور پر نئے تنازعات جنم لے سکتے ہیں۔ اِس لئے پانی سے متعلق تنازعات کے حل اور اِن کی روک تھام پر توجہ مرکوز کرنے کے لئے ایک فعال نقطہ نظر عملاً اپنانے کی ضرورت ہے اور یہی خوشحال مستقبل اور اِس مستقبل کو محفوظ بنانے کا باعث (محرک) ہو سکتا ہے۔