خود کفیل ترقی‘ خوشحالی اور بین الاقوامی قوانین و قواعد کا احترام کسی بھی قوم کے لئے کلیدی اہمیت کے عوامل ہیں اور اِن کے ذریعے خودمختاری‘ قانون کی حکمرانی‘ شفافیت‘ احتساب‘ جامع معاشی ترقی اور ڈیجیٹلائزیشن جیسے ترقیاتی اہداف حاصل کئے جاتے ہیں‘ سال 1947ءمیں اپنے قیام کے بعد سے پاکستان کو اپنی خودمختاری سے متعلق چیلنجز کا سامنا رہا ہے جس کی وجہ سے غیر آئینی حکمرانی ہے اور اِسی سبب مختلف ادوار میں سیاسی اور معاشی عدم استحکام پیدا ہوا‘ جس کے اثرات آج بھی محسوس اُور برداشت کئے جا رہے ہیں‘رائٹ ٹو انفارمیشن (آر ٹی آئی) قوانین کو نظر انداز کرنے سے حکمرانی میں شفافیت‘ جوابدہی اور کارکردگی کی کمی ہوتی ہے‘ جامع اقتصادی ترقی‘ پوری آبادی کےلئے جامع تعلیم اور اعلیٰ درجے کی مہارتوں سے متعلق ہوتی ہے جو انتہائی اہم ہے۔ حکومت اور معاشی عمل کی ڈیجیٹلائزیشن بھی اپنی جگہ ضروری ہے جس سے کارکردگی کو بہتر بنانا اور معاشرے میں حکمرانی اور ترقی کے مساوی فوائد کی تقسیم یقینی بنائی جا سکتی ہے‘ آئین کے آرٹیکل اُنیس اے کی تعمیل میں‘ جیسا کہ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں کہا گیا ہے کہ صوبوں نے اپنے اپنے آر ٹی آئی قانون متعارف کروانے ہیں یہ قوانین آرٹیکل اُنیس اے کے تحت لازمی شفافیت اور احتساب کے اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے ہر صوبے کی منفرد گورننس کی ضروریات کی عکاسی کرنے کےلئے ڈیزائن کئے گئے۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب نے سال دوہزارتیرہ میں اپنے ’آر ٹی آئی‘ قوانین نافذ کرنے میں پہل کی‘ زیادہ شفافیت کی اس تحریک کو سندھ اور بلوچستان نے بھی اپنایا۔ سندھ نے سال دوہزارسولہ میں ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ اپنایا اور بلوچستان نے دوہزاراکیس میں اِس سے متعلق اپنا قانونی نکتہ¿ نظر متعارف کرایا۔ سندھ کی جانب سے بنایا گیا آر ٹی آئی قانون زیادہ جامع نقطہ نظر پیش کرتا ہے۔ بلوچستان کے علاو¿ہ پاکستان بھر میں انفارمیشن کمیشن قائم ہیں حالانکہ نگران بلوچستان کابینہ نے شفافیت کے قوانین کے نفاذ کےلئے اکتوبر 2023ءمیں انفارمیشن کمیشن کے قیام کی منظوری دی تھی‘ اس کے ساتھ وفاقی معاملات کے لئے اسلام آباد میں وفاقی انفارمیشن کمیشن بھی قائم کیا گیا تاہم‘ اِن کمیشنوں نے شفافیت کے قوانین کو مو¿ثر طریقے سے نافذ کرنے کے لئے جدوجہد کی‘ جس سے بدعنوانی‘ احتساب کی کمی اور گورننس میں نااہلی کے ساتھ جاری مسائل کے حل میں مدد ملی ہے۔ شفافیت کے لئے قانون سازی کے اقدامات اور ان کے حقیقی اطلاق کے درمیان اہم فرق ہے‘ جس میں شہریوں کو حقیقی طور پر بااختیار بنانے اور حکمرانی کے نظام میں احتساب کو یقینی بنانے کےلئے خاطر خواہ اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔ اسکے علاو¿ہ اعلیٰ عدالتوں کے ججوں سمیت عدلیہ ’آر ٹی آئی‘ قوانین کی اہمیت کو سمجھنے میں سست روی کا مظاہرہ کر رہی ہے‘ جس میں سال دوہزارتیئس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی قابل ذکر تبدیلی آئی ہے اور جس نے قومی بیداری میں اضافہ کیا ہے لیکن ان قوانین کی صلاحیت کی جامع تفہیم نہیں کی ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر مرتضیٰ کھوڑو۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اس کے باوجود سپریم کورٹ نے وفاقی عدالتوں میں ’آر ٹی آئی ایکٹ‘ کے اطلاق اور آرٹیکل اُنیس اے کے تحت معلومات فراہم کرنے کی آئینی ذمہ داری کو تسلیم کرتے ہوئے شفافیت کے قوانین کی اہمیت کو بتدریج تسلیم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گورننس اور عدالتی نظام کی تمام سطحوں پر ان اصولوں کو شامل کی نشاندہی کی ہے‘ شفافیت اور احتساب کے ذریعے گورننس تبدیل کرنے کےلئے پاکستان میں آر ٹی آئی قانون سازی کی نمایاں صلاحیت کے باوجود‘ ان کی حقیقی قدر کو عدلیہ‘ سرکاری عہدیداروں اور معاشرے کے مختلف شعبوں میں بڑی حد تک تسلیم نہیں کیا جاتا۔ زیادہ تر لوگ اِن اقدامات کو محض معلومات کے حصول کے ذریعے کے طور پر دیکھتے ہیں لیکن عوامی اداروں اور وسیع معنوں میں طرزحکمرانی کی وجہ سے اِس کے گہرے اثرات و مضمرات ہیں۔ یہ قوانین‘ جو کہ جمہوریت کی بنیاد ہیں اور آئین کے آرٹیکل اُنیس اے کی تشریح و حمایت کرتے ہیں‘ یہ حکم بھی دیتے ہیں کہ سرکاری ادارے فعال طور پر معلومات کو مشتہر (شائع) کریں‘ تاکہ معلومات کے حصول کے لئے انفرادی درخواستیں دینے کی ضرورت کم سے کم رہے اگرچہ اِن قوانین پر عمل درآمد میں کچھ پیش رفت ہوئی ہے لیکن مکمل طور پر شفاف اور جوابدہ حکمرانی کے فریم ورک کے حصول کے لئے مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ ”سندھ ٹرانسپیرنسی اینڈ رائٹ ٹو انفارمیشن ایکٹ 2016ئ“ کی دفعہ چھ میں کہا گیا ہے ’گڈ گورننس (اچھی حکمرانی)‘ کے قیام اور اور شہریوں کو معلومات کے ذریعے زیادہ بااختیار بنایا جائے گا۔ وفاقی اور صوبائی قانون سازی کے سیکشن پانچ اور چھ میں درج دفعات بھی اِسی مقصد کی تشریح کرتے ہیں۔ اگر اِن قانونی دفعات کو مکمل طور پر نافذ کر دیا جائے اور ان کو مکمل طور پر اپنا لیا جائے تو بدعنوانی (کرپشن) بڑی حد تک کم ہو سکتی ہے۔ معلومات کے ذریعے عوام کو بااختیار بنانے اور شفافیت و احتساب کی بنیاد ہی طرزحکمرانی کی بہتری میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔پاکستان کی عدلیہ کے لئے ضروری ہے کہ وہ عدالتی نظام کے اندر رہتے ہوئے اِن قوانین کو نافذ کرنے کےلئے فیصلہ کن اقدامات کرے۔ اس طرح کا نفاذ حکومت کو براہ راست اور بالواسطہ طور پر اِن قوانین کو برقرار رکھنے کا پابند بنائے گا‘ جس کا مقصد عوام کو معلومات کے ذریعے بااختیار بنانا ہے یہ اہم قدم حکمرانی اور معاشی بحرانوں کے دائمی چکر سے بھی آزاد ہونے کےلئے ضروری ہے جس نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے۔ (مضمون نگار ہائی کورٹ کے وکیل اور سابق سرکاری ملازم ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔