توانائی ضروریات اور مستقبل

پاکستان کی موجودہ معاشی مشکلات کو اضافی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت سے منسوب کیا جا سکتا ہے جو اچھا خاصا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے پاس بجلی کی زیادہ پیداواری صلاحیت ہے جو جلد ہی آپریشنل ہوجائے گی اور قابل تجدید پیداواری صلاحیت جیسا کہ شمسی توانائی کی لاگت میں نمایاں کمی بھی دیکھی گئی ہے۔ دور اندیشی پر مبنی نکتہ نظر توانائی بحران کو ایسا مسئلہ تصور کرتا ہے کہ جسے حل نہیں کیا جاسکتا جبکہ طویل مدتی نکتہء نظر یہ ہے کہ لاکھوں افراد کو توانائی بحران اور معاشی غربت سے نکالنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ پاکستان میں بجلی کی 55فیصد سے زیادہ پیداوار ہائیڈل اور نیوکلیئر کے ذریعے حاصل ہوتی ہے جو دنیا میں کم کاربن توانائی کا بہتر امتزاج اور مرکب ہے۔ دیسی کوئلے کا استعمال بیس لوڈ بجلی کی فراہمی جاری رکھے گا اور درآمد شدہ کوئلے کے پاور پلانٹس کو مقامی کوئلے میں تبدیل کرنے پر توانائی کے لئے مقامی ذرائع کا استعمال 85فیصد سے تجاوز کر جائے گا اور اگر کسی صورت توانائی کو محفوظ بنا لیا گیا تو اس کے ساتھ قیمتی غیر ملکی زرمبادلہ کی بچت بھی ممکن ہوگی۔ ایسے تناظر میں چیلنج بجلی کی اضافی طلب پیدا کرنا ہے جو 23 کروڑ سے زائد آبادی کے لئے مسئلہ نہیں ہونا چاہئے۔ ملک میں تین کروڑ سے زیادہ دو پہیوں والی گاڑیاں اور تین پہیوں والی گاڑیاں ہیں۔ ملک میں درآمد ہونے والا تقریباً چالیس فیصد یا پانچ ارب ڈالر کا پیٹرول صرف موٹر سائیکلوں کے ذریعے استعمال کیا جاتا ہے۔ ٹرانسمیشن پلان کے ذریعے پیٹرول سے چلنے والی موٹر سائیکلوں کو الیکٹرک بائیکس میں تبدیل کرنے میں تیزی لائی جا سکتی ہے۔ پیٹرول سے چلنے والی موٹر سائیکلوں کو الیکٹرک موٹر سائیکلوں میں تبدیل کرنے والی کنورژن کٹس آسانی سے انسٹال کی جاسکتی ہیں جس سے سالانہ بچت ہوگی۔ اسی طرح ایک خودمختار سطح پر بجلی سے چلنے والی موٹر سائیکلوں کی جانب بڑھتے ہوئے پٹرول ایندھن سے چلنے والی موٹر سائیکلوں کو ختم کرنے کے لئے واضح پالیسی ہدایات کی ضرورت ہے۔ اندازہ ہے کہ اگر صرف دس لاکھ موٹر سائیکلوں (موجودہ سٹاک کا تقریباً 3.3فیصد)کو الیکٹرک میں تبدیل کر دیا جائے اور اوسطا تین کلو واٹ گھنٹے فی چارج استعمال کیا جائے تو اس سے ماہانہ 23 کروڑ کلو واٹ سے زیادہ بجلی کی کھپت ہوگی۔ اس طرح کی حکمت عملی سے ہر سال پیٹرول کی درآمدات میں ساڑھے ایک کروڑ پینسٹھ لاکھ ڈالر کی بچت ہوگی جبکہ اس عمل میں توانائی کے تحفظ میں بھی بہتری آئے گی۔ اسی طرح کی موٹر گاڑیوں اور بسوں کو بھی بجلی سے چلنے والی گاڑیوں میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت کو بڑھانے کے لئے نجی شعبے کو چارجنگ انفراسٹرکچر شروع کرنے کی ابھی سے ترغیب دی جا سکتی ہے تاکہ کم قیمت بجلی کے استعمال سے الیکٹرک گاڑیوں کو چارج کرنے کے اسٹیشنز بنائے جا سکیں۔ گزشتہ دس برس میں سولر پینلز کی قیمت میں کئی گنا کمی آئی ہے اسی طرح بیٹریوں کی قیمت بھی کم ہو رہی ہے۔ کسی بھی ٹیکنالوجی کے فروغ کا یہ اصول ہوتا ہے کہ جیسے جیسے مصنوعات کی مانگ دوگنی ہوتی ہے اس کی قیمت میں ایک خاص تناسب سے کمی آتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ مستقبل کو اپنایا جائے اور انفراسٹرکچر اور پالیسی فریم ورک تیار کرنے کے لئے کام کیا جائے جو مستقبل کی ضروریات کو پورا کرسکے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کو کمیونٹی گرڈز اور مائیکرو گرڈز جیسی ضرورت پورا کرنے کے قابل بنانا بھی ضروری ہے۔ قابل تجدید توانائی کی صلاحیت کو تقسیم شدہ پیداوار اور سٹوریج کی صلاحیت دونوں کے ذریعہ بہتر طریقے سے حاصل کیا جاسکتا ہے اور یہ جلد ہی سسٹم میں داخل بھی ہوجائے گی۔ جہاں تک بجلی کی کمی کا تعلق ہے تو ماضی میں تمام مسائل بجلی کی کمی کی وجہ سے تھے تاہم اس بار مسئلہ اضافی (سرپلس)بجلی کا ہے اور یہ اضافی بجلی اب سسٹم کے لئے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔ اضافی بجلی کی صلاحیت سے پیدا ہونے والے مسئلے کا حل یہ ہے کہ بجلی کی قیمت کم کر کے صارفین کو زیادہ بجلی استعمال کرنے کی طرف راغب کیا جائے اس سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ جب صنعتوں کو درکار بجلی کی ضروریات پوری ہوں گی تو اِس سے اضافی طلب پیدا ہو گی جسے اضافی گنجائش اور اضافی پیداوار سے باآسانی پورا کیا جا سکے گا۔ پاکستان ترقی کے ابتدائی مراحل سے گزر رہا ہے اور ہمیں کم نہیں بلکہ زیادہ توانائی کی ضرورت ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کے پاس نہ تو بجلی کے پیداواری وسائل کی کمی مسئلہ ہے اور نہ ہی بجلی پیدا کرنے کے لئے مالی کمی جیسا کوئی مسئلہ ہے۔ اصل مسئلہ بجلی کی ترسیل اور وسیع پیمانے پر اس کے استعمال کا ہے۔ وسائل کے بہتر استعمال سے توانائی سے جڑے بہت سے مسائل باآسانی حل کئے جا سکتے ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر عمار حبیب خان۔ ترجمہ ابوالحسن اِمام)