سزاے موت کا معاملہ 

 اگر آپ تاریخ کے اوراق کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ پھانسی کی سزا کے حق اور مخالفت میں دو آرا ء رہی ہیں بعض لوگوں کی دانست میں پھانسی جیسی سخت سزا کے بغیر کسی بھی معاشرے سے جرائم کی سرکوبی ناممکن ہے جب کہ اس سوچ کے برعکس بعض طبقے اس سوچ کے حامل ہیں کہ پھانسی ایک وحشیانہ عمل ہے‘یہ بات ہمارے ذہن میں نئے امریکی صدر ٹرمپ کا یہ تازہ ترین بیان پڑھ کر آئی ہے جس میں انہوں نے اپنے اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ سنگین جرائم کے مرتکب مجرموں کو پھانسی دینے کے حق میں ہیں یہ بات تو طے ہے کہ سزاو جزا کے بغیر کسی بھی معاشرے میں نہ انصاف پنپ سکتا ہے اور نہ وہاں امن عامہ قائم رہ سکتا ہے‘خدا کا خوف تو آج کے مادہ پرست دور میں لوگوں کے دل سے کب کا نکل چکا ہے اب جیل اور موت کی سزا کا خوف ہی بگڑے ہوئے افراد کو راہ راست پر لا سکتا ہے ایک پرانی کہاوت ہے کہ بگڑے تگڑے لوگوں کا علاج صرف ڈنڈے سے ہی ممکن ہے اس ضمن میں تازہ ترین مثال چین کی دی  جا سکتی ہے وہاں اگر کرپشن کا خاتمہ ہوا ہے تو محض اس واسطے ہوا ہے کہ کرپٹ عناصر کو بر سر عام ایک قطار میں فائرنگ سکواڈ کے سامنے کھڑا کر کے گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ جو گولیاں ان پر چلائی جاتی ہیں ان کی قیمت بھی ان سے ہی ایڈوانس میں وصول کر لی گئی ہوتی ہے اب بظائر تو یہ عمل کئی لوگوں کو شاید وحشیانہ لگے پر جس طریح ڈاکٹر لوگ انسانی جان کو موت سے بچانے کے واسطے سرجری کے ذریعے اس کے جسم کی چیر پھاڑ کرتے ہیں بالکل اسی طرح معاشرے سے برائیوں کے خاتمے کے واسطے کبھی کبھی معاشرے سے کرپشن کا قلع قمع کرنے کے لئے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف سرجیکل آپریشن ضروری ہو جاتا ہے‘کہنے کا مقصد یہ ہے سخت سزاؤں کے بغیر کسی بھی معاشرے کو جرائم سے پاک نہیں کیا جا سکتا بھلے وہ اخلاقیات کے فقدان کی وجہ سے ہوں یا مالی کرپشن اور رشوت خوری یا کمیشن خوری سے ان کا تعلق ہو۔