موسمیاتی تبدیلی کے عالمی بحران سے نمٹنے کے لئے توانائی کے متبادل ذرائع سے استفادہ کرنا ہوگا کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے غربت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جبکہ یہ سماجی معاشی استحکام کے لئے بھی سنگین خطرہ ہے۔ پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ڈویلپمنٹ اکنامکس کی جانب سے دی اسٹیٹ آف پوورٹی ان پاکستان (پاکستان میں غربت کی صورتحال) کے عنوان سے ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2018-19ء میں پاکستان کی ساڑھے اکیس فیصد آبادی یعنی ہر پانچ میں سے ایک فرد غربت کی زندگی گزار رہا تھا۔ اقوام متحدہ کے ہیبی ٹیٹ نے گلوبل کلائمیٹ رسک انڈیکس میں پاکستان کو پانچواں سب سے غیرمحفوظ ملک قرار دیا ہے۔ سال دوہزاربائیس کے سیلاب سے پندرہ ارب ڈالرز سے زائد کا نقصان ہوا اور تین کروڑ تیس لاکھ افراد متاثر ہوئے۔ اسی طرح 2010ء کے سیلاب نے ملک کے جغرافیائی رقبے کا پانچواں حصہ تباہ کر دیا تھا جس سے دو کروڑ سے زائد افراد اپنے سر پر چھتوں سے محروم ہوئے۔ پچھلے تیرہ سال میں دو بڑے سیلابوں نے مجموعی طور پر پانچ کروڑ تیس لاکھ افراد کو نہ صرف غربت کی لکیر سے نیچے دھکیلا بلکہ مستقبل میں رونما ہونے والی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے اِن کے متاثر ہونے کے امکانات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن نے اپنی تحقیق میں کہا ہے کہ پاکستان میں بارشوں کی شدت میں پچاس سے پچتھر فیصد اضافہ ہوا ہے جو ممکنہ طور پر تباہ کن سیلابوں کا سبب بن سکتا ہے تو ضرورت اِس امر کی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے مضبوط و پائیدار حکمت عملی تیار کی جائے اور اِس سے بھی زیادہ ضروری یہ ہے کہ اُس حکمت عملی پر عمل درآمد بھی کیا جائے۔ورلڈ بینک کے مطابق سولر فوٹو وولٹک کے لئے پاکستان کی محض 0.071 فیصد زمین کا استعمال ہی کافی ہوگا جبکہ یہ ملک کی موجودہ بجلی کی طلب کو پورا کرسکتا ہے۔ اس کے باوجود بجلی کی پیداوار کی ساٹھ فیصد تنصیبات کوئلے، تیل اور گیس پر انحصار کرتی ہیں جبکہ 8.41 بجلی فیصد جوہری توانائی سے حاصل ہوتی ہے۔ گزشتہ مالی سال میں جولائی تا مارچ کے دوران پاکستان نے خام اور پیٹرولیم کی درآمدات پر آٹھ ارب ڈالرز سے زائد خرچ کئے۔ قابلِ تجدید ذرائع پر تیزی سے منتقلی سے تھرمل اور جوہری توانائی پر انحصار کم ہونا چاہئے کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے آنے والی آفات کے دوران یہ اضافی خطرات کا باعث بنتے ہیں۔ ایشین ونڈ انرجی ایسوسی ایشن کے مطابق صرف ٹھٹہ ونڈ راہداری پچاس گیگا واٹ قابلِ تجدید توانائی پیدا کرسکتا ہے جبکہ ورلڈ بینک کے اندازے کے مطابق بلوچستان میں ہوا سے توانائی پیدا کرنے کی صلاحیت بیس گیگا واٹ ہے۔ شمسی توانائی اور ونڈ پاور دونوں کا استعمال کرکے پاکستان گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کو کم کر سکتا ہے اور یوں پیرس معاہدے میں طے شدہ اہداف کا حصول بھی آسان ہوجائے گا۔ قدرت اور جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے شہری علاقوں کو ماحول دوست مقامات میں تبدیل کرنا ہوگا جس میں نجی استعمال کی گاڑیوں کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ پر زیادہ انحصار کیا جائے۔ شہروں کی ہریالی میں اضافے کے لئے بھی کام ہونا چاہئے جبکہ شجرکاری اور چھوٹے باغات بنانے کے جنگلی حیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ گاڑیوں کی ضرورت کو کم، سائیکل اور پیدل چلنے پر زیادہ توجہ مرکوز کرتے ہوئے شہروں کو نئے سرے سے ڈیزائن کیا جانا چاہئے۔ پاکستان ماحول دوست توانائی کے متبادل ذرائع پر انحصار میں اضافہ کرنے کے لئے دیگر ممالک کے منصوبوں سے بھی اسباق حاصل کرسکتا ہے جیسا کہ آسٹریا کی شاہراہوں پر شمسی پینل، بھارت میں پانی کو بخارات بننے سے روکنے کے لئے نہروں پر شمسی پینل کی تنصیب اور نیدرلینڈز (ہالینڈ) میں بچھائے گئے شمسی فرش جیسے عملی اقدامات کے ذریعے توانائی کی کمی اور ماحول دوستی میں اضافہ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ زراعت کو بھی موسمیاتی تبدیلیوں سے موافق بنانا چاہئے جس میں پانی کی بچت اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ کسانوں کو تعلیم دینے اور انہیں جدید ٹیکنالوجی سے متعارف کرنا، دیہی کمیونٹیز کے لئے مددگار ثابت ہوگا جبکہ اس سے غربت کو کم کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ تعلیم اور تربیت میں سرمایہ کاری کر کے نوجوانوں کو موسموں سے موافق حل پر عمل در آمد کرنے کے ہنر سکھائے جانے چاہیئں۔ (بشکریہ ڈان۔ تحریر ایوب حمیدی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
اشتہار
مقبول خبریں
موسمیاتی تبدیلی: راہئ نجات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سال 2024ء کی یادیں
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
سال 2025: غیرمستحکم دنیا
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جنوبی ایشیا بنا بھارت
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
مصنوعی ذہانت: مخفی پہلو
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
ٹیکنالوجی پر مبنی پاکستان
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
موسمیات اور انسانی حقوق
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
عالمی جنوبی ممالک : اشتراک عمل
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
جرائم کے اَسباب
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام
خوردنی اجناس کی برآمدات
ابوالحسن امام
ابوالحسن امام