چین کی جانب سے متعارف کرائے گئے مصنوعی ذہانت کے ماڈل ڈیپ سیک کو مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس AI) کے شعبے میں گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے اور دوسری اہم بات یہ ہے کہ چین کی ایجاد نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں امریکی بالادستی کو بھی چیلنج کیا ہے۔ واشنگٹن کی جانب سے عائد چین پر امریکی ٹیکنالوجی خریدنے پر پابندی عائد ہے اور چین نے ذہانت سے کام لیتے ہوئے اوپن اے آئی اور میٹا پلیٹ فارمز سمیت امریکی ٹیکنالوجی کمپنیوں کی لاگت کے ایک فیصد سے بھی کم لاگت پر ایک ایسا مصنوعی ذہانت کا ماڈل تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جس میں خودکار طریقے سے سیکھنے کی صلاحیت بھی موجود ہے اگرچہ ڈیپ سیک کو چینی قمری نئے سال کی آمد پر لانچ کیا گیا ہے لیکن مغربی میڈیا یہ رپورٹ کر رہا ہے کہ چین نے جان بوجھ کر بیس جنوری کا انتخاب کیا جب نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بطور صدر دوسری مرتبہ عہدے کا حلف اٹھایا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ٹرمپ اپنے دور اقتدار میں امریکہ کو مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجی میں ناقابل تسخیر قوت میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں جبکہ چینی صدر شی جن پنگ بھی مصنوعی ذہانت کے شعبے میں چین کو سپر پاور کے طور پر دیکھنے کے لئے پرعزم ہیں۔ اس صورتحال میں کیا امریکہ چین کا مقابلہ کر سکے گا؟دونوں ممالک کے درمیان ٹیکنالوجی کے شعبے میں مقابلے نے سرد جنگ کی یاد تازہ کر دی ہے جب امریکہ اور سوویت یونین نے تمام محاذوں پر مقابلہ کرتے ہوئے خلاء کی تسخیر کا آغاز کیا تھا۔ اُس وقت یہ عام تاثر تھا کہ دو لڑاکا سپر پاورز میں سے جو بھی چاند پر قدم رکھنے میں پہلے کامیاب ہوئی وہی سپر پاور کا درجہ حاصل کرنے کی حقدار ہوگی۔ تاہم آج اکیسویں صدی میں سوویت یونین اب دنیا کے نقشے پر موجود نہیں بلکہ چین امریکہ کے مدمقابل کھڑا ہے جو ہر محاذ پر امریکہ کو ٹف ٹائم دے رہا ہے۔ دعویٰ یہ بھی کیا جا رہا ہے کہ چین نے مصنوعی ذہانت کے شعبے میں مذکورہ بڑی کامیابی مقامی وسائل اور اپنی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل ہونے والے سائنسدانوں کی مدد سے حاصل کی ہے۔ ڈیپ سیک کے بانی لیانگ وین فینگ نے ژی جیانگ یونیورسٹی میں مصنوعی ذہانت کی تعلیم حاصل کی جبکہ ان کی 140 انتہائی ہنر مند افراد پر مشتمل ٹیم نے بھی چین کی مقامی یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی۔پاکستان میں مصنوعی ذہانت کی اہمیت کو تسلیم کیا جا رہا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر رامیش کمار وانکوانی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
گزشتہ چند برس میں حکومت نے نیشنل سینٹر فار آرٹی فیشل انٹیلی جنس جیسے ادارے قائم کئے ہیں جبکہ مصنوعی ذہانت میں ہنر مند افرادی قوت تیار کرنے کے لئے مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں میں مصنوعی ذہانت سے متعلق مختلف پروفیشنل کورسز اور ڈگری پروگرامز جاری ہیں تاہم پاکستان میں سب سے بڑی رکاوٹ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں اعلیٰ معیار کی تحقیق اور سرمایہ کاری کا فقدان ہے۔ ہمارے اعلیٰ تعلیمی ادارے مصنوعی ذہانت میں ڈگریاں ضرور دے رہے ہیں لیکن ان کے ہاں عملی تجربہ اور عملی کام نہیں ہو رہا جس کی وجہ سے طلبہ ضروری مہارت حاصل نہیں کر پا رہے۔ پاکستان کو درپیش دوسرا بڑا چیلنج ”برین ڈرین“ کا ہے جس کی وجہ سے بہت سے پاکستانی پروفیشنلز بہتر ملازمتی مواقعوں (کیریئر) کی تلاش میں دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔ مزید برآں، کمپیوٹنگ پاور، ڈیٹا اسٹوریج اور سب سے اہم انٹرنیٹ شٹ ڈاؤن سمیت مختلف تکنیکی مسائل ہمارے ملک میں مصنوعی ذہانت کی ترقی میں رکاوٹ ہیں۔ پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے حوالے سے خدشات بھی عام ہیں۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت کو اپنانے کی وجہ سے انسانوں کے ذریعے چلائی جانے والی بہت سی ملازمتیں ختم ہو جائیں گی جبکہ کچھ کا خیال ہے کہ مصنوعی ذہانت پر مکمل انحصار سے انسانی ذہانت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔