ڈیپ سیک: مصنوعی ذہانت کا نیا دور

ستمبر دوہزارسترہ میں‘ روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن نے اعلان کیا تھا کہ مصنوعی ذہانت ہی دنیا کا مستقبل ہے اور نہ صرف روس کے لئے بلکہ یہ پوری انسانیت کا مستقبل بنتے ہوئے ایک ضرورت بن چکا ہے۔ یہ بہت سارے مواقع ساتھ لایا ہے لیکن ایسے خطرات بھی ہیں جن کی پیش گوئی کرنا مشکل ہے۔ جو بھی اس میدان میں قائد بنے گا وہ دنیا کا حکمران بن جائے گا۔ڈیپ سیک (DeepSeek) اور چین کی جانب سے دیگر مصنوعی ذہانت (آرٹی فیشل انٹیلی جنس AI) ماڈلز کی پیش رفت مصنوعی ذہانت کے میدان میں چین اور مغربی ممالک کے درمیان بڑھتی ہوئی پیچیدہ دشمنی میں تبدیل ہو گئی ہے اگرچہ فی الوقت غلبہ مغرب کا ہے لیکن بنیادی مصنوعی ذہانت کی تحقیق میں چین تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے۔ چین کی مصنوعی ذہانت کی ٹیکنالوجیز کو تیزی سے بڑھانے کی صلاحیت سے نئے مسابقتی منظر نامے تخلیق ہو رہے ہیں۔ آنے والے برسوں میں، یہ دشمنی ممکنہ طور پر شدت اختیار کرے گی، جس میں دونوں فریق نہ صرف جدت بلکہ مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں شامل ہوں گے۔ توجہ طلب ہے کہ امریکی ٹیک ہیوی سٹاک انڈیکس نیسڈیک میں اس وقت گراوٹ آئی جب ایک چینی اسٹارٹ اپ نے مصنوعی ذہانت میں امریکی قیادت اور منافع پر اعتماد کو جھٹکا دیا، جس سے مصنوعی ذہانت میں استعمال ہونے والی چپس بنانے والی معروف کمپنی این ویڈیا (این وی ڈی اے) کی مارکیٹ ویلیو میں ریکارڈ 589 ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ نیسڈیک اور ایس اینڈ پی 500 کو ان رپورٹس سے بھی دھچکا لگا کہ چین کی ڈیپ سیک معروف ماڈلز کے مقابلے میں سستے چپس اور کم ڈیٹا استعمال کرتی ہے لیکن یکساں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ ڈیپ سیک کی مقبولیت میں اضافے نے سرمایہ کاروں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا ہے کہ آنے والے دنوں میں مصنوعی ذہانت کی طلب پر مبنی ترقی اسٹاک (حصص کی قدر) میں اضافہ کرے گی۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اِس صنعت کو درپیش حالات و مشکلات کو سیلیکون ویلی کے لئے ”ویک اپ کال“ قرار دیا ہے تاکہ امریکی ٹیکنالوجی کی بالادستی کو برقرار رکھنے کے لئے زیادہ مؤثر راستوں کی تلاش کی جا سکے۔حالیہ چند برس میں‘ چین نے مصنوعی ذہانت کے میدان میں خود کو طاقتور کھلاڑی (ماہر) کے طور پر ثابت کیا ہے، جس کے عزائم عالمی مصنوعی ذہانت کے منظر نامے پر غلبہ حاصل کرنے کے ہیں۔ اس چیلنج کے تازہ ترین اشاروں میں سے ایک ڈیپ سیک کا ابھرنا ہے، جو جدید مصنوعی ذہانت پلیٹ فارم ہے اُور اِس سے مصنوعی ذہانت کی تحقیق اور ترقی میں چین کی تیز رفتار پیش رفت ظاہر ہوتی ہے۔ چین کے مصنوعی ذہانت کے سفر میں قابل ذکر پیش رفت کی بڑی وجہ ریاستی حمایت یافتہ اقدامات، اعداد و شمار کا بھرپور ذخیرہ اور محققین و انجینئروں کی انتہائی حوصلہ افزائی کرنے والی افرادی قوت ہے۔ مصنوعی ذہانت کو مستقبل کی اقتصادی اور جغرافیائی سیاسی طاقت کے بنیادی شعبوں میں سے ایک کے طور پر دیکھا جا رہا ہے، چین نے مصنوعی ذہانت کو قومی ترجیح بنا دیا ہے۔ سال دوہزارسترہ میں، چینی حکومت نے 2030ء تک مصنوعی ذہانت میں عالمی رہنما بننے کے اپنے پرجوش منصوبے کا اعلان کیا تھا، جس میں مصنوعی ذہانت کے بنیادی ڈھانچے سے لے کر تحقیقی منصوبوں کے لئے حکومتی فنڈنگ تک ہر چیز پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ اس تناظر میں، بیڈو، علی بابا، ٹینسینٹ اور حال ہی میں ڈیپ سیک جیسے اسٹارٹ اپ سامنے آئے ہیں۔ چین میں مصنوعی ذہانت کی ترقی کی رفتار جدت اور ریگولیٹری ماحول کی وجہ سے ہے جو نئی ٹیکنالوجیز کی تیزی سے استعمال کے حوالے سے ہے۔ ڈیپ سیک چین کی مصنوعی ذہانت کی صلاحیتوں کے لئے سنگ بنیاد کی حیثیت رکھتا ہے۔ چینی محققین کی ایک ٹیم کے ذریعہ تیار کردہ یہ پلیٹ فارم، اس کی تکنیکی نفاست اور اس کی ایپلی کیشنز دونوں میں مصنوعی ذہانت کی حدود کو آگے بڑھانے کے لئے ڈیزائن کیا گیا ہے۔ ڈیپ سیک نے قدرتی زبان کی پروسیسنگ، مشین لرننگ اور کمپیوٹر ویژن میں متاثر کن پیشرفت کا مظاہرہ کیا ہے جو مغربی طرز کے مصنوعی ذہانت ماڈلز کی تحقیق کے لئے بھی اہم نکات ہیں۔ ڈیپ سیک کی نمایاں خصوصیات میں سے ایک بڑے پیمانے پر ڈیٹا پروسیسنگ کی صلاحیت ہے جو اس سے قبل ناقابل تصور تھی۔ یہ پلیٹ فارم مختلف ذرائع سے ڈیٹا حاصل کر کے اُسے مربوط کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چین اور مغربی ممالک کے مصنوعی ذہانت کے طریقوں کے درمیان بنیادی فرق بھی یہی ہے کہ چین کا ماڈل وسیع مقدار میں ڈیٹا سے فائدہ اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ڈیپ سیک چین کی ترقی اور عالمی منڈیوں میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کو نئی شکل دے سکتی ہے اور ٹیکنالوجی، ہیلتھ کیئر اور مینوفیکچرنگ جیسے شعبوں میں مغربی غلبے کو بھی چیلنج کر سکتی ہے۔ مزید برآں مصنوعی ذہانت چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (بی آر آئی) اُور چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے لئے بھی امکانات کے نت نئے جہان رکھتی ہے اور چین مصنوعی ذہانت سے چلنے والے جدید بنیادی ڈھانچے اور خدمات کی فراہمی کر ذریعے ترقی پذیر ممالک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھا سکتا ہے۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر یوسف نذر۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)۔