سابق امریکی صدر جو بائیڈن انتظامیہ کے آخری مرحلے میں اس وقت کے امریکی ڈپٹی این ایس اے جون فائنر نے چونکا دینے والے ریمارکس دیئے تھے کہ پاکستان کے میزائل امریکہ سمیت جنوبی ایشیا سے باہر بھی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ کسی بھی امریکی عہدے دار کا بغیرسوچے سمجھے غیرذمہ دارانہ بیان تھا جو نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کے پالیسی اور میزائل ماہرین کے لئے بھی حیران کن رہا۔ پاکستان نے جواب دیا کہ اس کے اسٹریٹجک پروگرام اور اتحادی صلاحیتوں کا مقصد صرف بھارت کی طرف سے واضح وجودی خطرے کو روکنا اور ناکام بنانا ہے اور اسے کسی دوسرے ملک کے لئے خطرہ نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ اس اشتعال انگیزی کی سب سے معقول وجہ نئی امریکی انتظامیہ کو پاکستان کے ساتھ منفی تعلقات میں جکڑنے کی کوشش معلوم ہوتی ہے۔جون 2022ء اور 2023ء میں امریکہ نے بھارت اور پاکستان کیلئے کنٹری انٹیگریٹڈ اسٹریٹیجیز جاری کیں، جس میں امریکہ ”پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگراموں پر شفافیت اور (یکطرفہ) تحمل کی حوصلہ افزائی کرتا ہے تاکہ یہ امریکہ یا اس کے اتحادیوں اور شراکت داروں کے لئے خطرہ نہ بنیں۔ اس کے ساتھ ہی امریکہ کا مقصد بھارت کے ساتھ دفاعی اور سکیورٹی تعاون کو وسعت دینا ہے تاکہ باہمی تعاون کو بڑھایا جا سکے اور بھارت کو (نام نہاد) بحرہند و بحرالکاہل کے خطے اور اس سے آگے سکیورٹی فراہم کرنے میں مدد مل سکے لیکن اس کے برعکس اسی حکمت عملی میں جنوبی ایشیا میں مکالمے اور علاقائی انضمام کی ضرورت ہے۔ امریکہ کا یہ رویہ جنوبی ایشیا میں علاقائی استحکام کو نقصان پہنچانے کی قیمت پر سامنے آیا ہے۔ جب بھارت بیلسٹک اور کروز میزائلوں، بی ایم ڈی سسٹمز اور اے ایس اے ٹی کی صلاحیتوں سمیت اپنی جارحانہ فوجی اور صلاحیتوں میں تیزی سے اضافہ کر رہا ہے تو پاکستان یکطرفہ تحمل کا مظاہرہ کیسے کر سکتا ہے؟ماضی میں پاکستان نے ہمیشہ امریکہ کو بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں ثالث اور استحکام کا عنصر سمجھا ہے۔ پاکستان کے جوہری اور میزائل پروگرام کو روکنے کے ساتھ ساتھ بھارت کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد بنانے کی موجودہ امریکی حکمت عملی نے اس کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اپنے جغرافیائی سیاسی مقاصد میں امریکہ جوہری عدم پھیلاؤ کے عالمی نظام، قائم کردہ بین الاقوامی قانون اور اصول پر مبنی نظام میں اپنی قیادت سے بھی سمجھوتہ کر رہا ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد چونکہ امریکہ بھارت کے ساتھ قربت رکھتا ہے، اس لئے پاکستان میں پالیسی سازوں کو امریکی پالیسیوں میں ایک ایسا نمونہ نظر آتا ہے جو جغرافیائی سیاسی مفادات پر جوہری عدم پھیلاؤ کی ترجیحات کو نظر انداز کرتا ہے۔ سال دوہزارآٹھ میں امریکہ نے نیوکلیئر سپلائرز گروپ (این ایس جی) سے کہا تھا کہ وہ سویلین اور فوجی پروگراموں کی واضح علیحدگی کو یقینی بنائے بغیر پرامن جوہری تعاون کو آسان بنانے کیلئے بھارت کو چھوٹ دے۔ اس استثنیٰ نے بھارت کے غیر محفوظ سویلین نیوکلیئر مواد کو اس کے فوجی پروگرام کیلئے آزاد کر دیا ہے۔سال دوہزاربیس میں امریکہ نے بھارت کو آٹھ سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ بغیر پائلٹ کے فضائی نظام (یو اے ایس) برآمد کرنے کی اجازت دی‘ تاریخی طور پر بھارت نے اپنے ایس ایل وی پروگرام کو اگنی سیریز کے بیلسٹک میزائل پروگرام میں شامل کیا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ سابق امریکی نائب این ایس اے نے کارنیگی میں اپنی تقریر کے دوران یہ بھی اشارہ دیا کہ امریکہ ایم ٹی سی آر کے رہنما خطوط پر اپنے قومی میمورنڈم میں ترمیم کرنے کے عمل میں ہے جس کا مقصد بھارت جیسے امریکی اتحادیوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ خلائی تعاون کو آسان بنانا ہے۔ بھارت کی خلائی ٹیکنالوجی نے اس کے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) پروگرام کو براہ راست متاثر کیا ہے۔ روسی ٹیکنالوجی کی مدد سے، بھارت نے جی ایس ایل وی، پی ایس ایل وی، اور ایس ایل وی ٹیکنالوجیز جیسی خلائی لانچ گاڑیاں تیار کیں جنہیں بعد میں فوجی استعمال کے لئے ڈھال لیا گیا ہے۔ آج بھارت کے پاس بڑے پیمانے پر میزائل ہتھیار موجود ہیں جو روایتی اور جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔(بشکریہ دی نیوز۔ تحریر‘ علی سرور نقوی۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)
بھارت سے متعلق امریکی موقف میں واضح تضاد نظر آتا ہے۔ پاکستان نے مسلسل کہا ہے کہ اس کی دفاعی صلاحیت کا مقصد صرف بھارت کی جارحیت کے خلاف مزاحمت کو برقرار رکھنا ہے۔ جو بائیڈن کے نکتہئ نظر سے متاثر ہونے کے بجائے، ٹرمپ کے پاس جنوبی ایشیا میں امن اور استحکام کو فروغ دینے کا موقع ہے۔ یہ صرف بھارت اور پاکستان کے بارے میں متوازن امریکی پالیسیوں سے ہی آ سکتا ہے۔ توقع ہے کہ اسلام آباد خطے میں استحکام لانے والی کسی بھی امن کوشش کا خیرمقدم کرے گا۔ ……