وفاقی دارالحکومت میں عالمی مالیاتی فنڈ کے ساتھ نئے قرضے کے حصول اور اس کیلئے عائد شرائط سے متعلق مذاکرات گزشتہ روز مکمل ہوگئے‘ ان مذاکرات سے متعلق ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کا لب لباب یہ بتایا جارہا ہے کہ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ نے حکومت کی جانب سے بینکوں میں سے 1250 ارب کا قرضہ لینے پر بھی اعتراض کردیا ہے‘ عالمی مالیاتی ادارے نے ٹیکس میں کمی کی تجویز بھی مسترد کردی ہے‘ اس کے ساتھ کارپوریٹ و رئیل سٹیٹ سیکٹر کو ریلیف اور جی ایس ٹی میں کمی کا پلان بھی نامنظور کردیا ہے‘ مذاکرات سے متعلق میڈیا رپورٹس کے مطابق بجلی کے بلوں میں 2.80 روپے کے سرچارج کا فیصلہ بھی نہ ہو سکا دریں اثناء پاکستان نے کاربن پر لیوی بڑھانے کیلئے آئی ایم ایف کا مطالبہ تسلیم کرنے سے انکار کردیا اس سب کیساتھ قرضے کی ایک ارب ڈالر قسط ملنے سے متعلق امکان پیدا ہوگیاہے اس ساری صورتحال میں وفاقی وزیر اویس لغاری کا کہنا ہے کہ انرجی سیکٹر میں بڑھتے قرضوں کو کم کرنے کیلئے کمرشل بینکوں کے ساتھ ایک کھرب250ارب روپے کے قرضے پر بات چیت ہو رہی ہے اس قرض کا مقصد توانائی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے قرضوں کو کم کرنے کیلئے کمرشل حکمت عملی قرار دیا جارہا ہے‘ عین اسی روز جب اسلام آباد میں حکومت پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات آخری مرحلے میں تھے درپیش صورتحال کے تناظر میں چین نے پاکستان کے ذمے2ارب ڈالر قرضے کی واپسی میں ایک سال کی توسیع کردی ہے‘وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ چین کے اس تعاون سے ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر مضبوط ہوگئے ہیں ملکی معیشت کو درپیش مشکلات اور ان سے نمٹنے کیلئے قرضوں کا حصول عرصے سے جاری ہے اور یہ سلسلہ یکے بعد دیگرے برسراقتدار آنے والی حکومتوں میں کم اور زیادہ کے فرق کے ساتھ جاری چلا آرہا ہے‘ قرضے کے ساتھ قرضہ دینے والوں کی شرائط پر مشتمل فہرست بھی آتی ہے جس پر عملدرآمد مجبوری ہوتا ہے‘ اس ساری ایکسر سائز میں ایک جانب قرضوں کا والیوم تشویشناک حد تک بڑھ رہا ہے تو دوسری طرف عوام پر بوجھ ناقابل برداشت ہوتا چلا جا رہا ہے قابل اطمینان ہے کہ وزیراعظم شہبازشریف اکانومی کے سیکٹر کو درپیش مشکلات سے نمٹنے کو اپنی ترجیحات میں سرفہرست قرار دیتے ہیں اور اس حوالے سے اب تک کی کوششوں میں اقتصادی اشاریے بہتر ہونے کے ساتھ گرانی کا گراف بھی اعدادوشمار میں کم ہوا ہے جس کے اثرات مارکیٹ کنٹرول کے نظام سے جڑے ہیں ضرورت اس سارے منظرنامے میں قرضوں کے چنگل سے نکلنے کی ہے جس میں قومی قیادت کی وسیع مشاورت بھی ناگزیر ہے اس حوالے سے ضرورت میثاق معیشت کے حوالے سے پیش رفت کی بھی ہے تاکہ پائیدار حکمت عملی تشکیل دی جا سکے۔
