بنیادی وجوہات

بلوچستان میں شورش پسندوں کا تشدد بیماری نہیں بلکہ بیماری کی علامت ہے۔ یہ بیماری سیاسی، معاشی اور انتظامی نظام کی ناکامیوں کی وجہ سے ہے۔ریاست کو اس بیماری کا علاج تلاش کرنا چاہئے۔ یقینی طور پر، یہ بیماری جو سیاسی، معاشی اور انتظامی نوعیت کی ہے تشدد کو بڑھاوا دے رہی ہے۔”لالچ اور شکایت“ کا فریم ورک تنازعے کی ساختی اور قریبی وجوہات کا تجزیہ کرتا ہے۔ ”لالچ اور شکایت“ کا یہ فریم ورک اہم اسٹیک ہولڈرز کی نشاندہی بھی کرتا ہے‘ تنازعات کی حرکیات کا نقشہ بناتا ہے اور فوج پر مرکوز ردعمل کی افادیت کا جائزہ لیتا ہے۔ مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا کوئی بھی عملی (حرکی) حل بنیادی سیاسی اور سماجی و اقتصادی جدوجہد کی صورت مسئلے کا حل پیش کر سکتا ہے؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پائیدار امن کے حصول کے لئے متبادل راستوں (انوکھے حل) کی ضرورت ہے؟ موجودہ فریم ورک (لائحہ عمل) کے ”لالچ کا جزو“ میں کہا گیا ہے کہ فریقین غیر رسمی لاگت کے فوائد کا تجزیہ کرنے کے بعد تشدد میں ملوث ہوتے ہیں، جس میں اسٹیٹس کو کے خلاف بغاوت کے مادی اور طاقت کے فوائد کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس بات کے شواہد اپنی جگہ موجود ہیں کہ بلوچ باغیوں نے لندن سے قطر اور متحدہ عرب امارات تک پھیلی مضبوط مالیاتی پائپ لائن قائم کر رکھی ہے، جس سے انہیں مدد مل رہی ہے۔ ”شکایت کے جزو“ میں ’شکایات‘ مایوسی‘جارحیت اور بغاوت‘ پائی جاتی ہے۔ ساختی شکایات‘ حقیقی یا فرضی‘ انفرادی مایوسی کو بڑھاوا دیتی ہیں، جو اجتماعی جارحیت اور بالآخر مسلح بغاوت میں ضم ہوجاتی ہیں۔ بلوچستان میں تشدد کا سلسلہ چار بنیادی شکایات پر منحصر ہے: سیاسی اخراج جو نسبتاً محرومی، انتظامی نااہلی اور وسائل کا استحصال کرتا ہے۔ سیاسی اخراج غیر نمائندہ حکمرانی کے ڈھانچے سے پیدا ہوتا ہے جو نسبتاً محرومی تعلیم، روزگار، صحت اور آمدنی میں شدید عدم مساوات میں ظاہر ہوتی ہے۔ انتظامی نااہلی بیوروکریٹک نظام کی عکاسی کرتی ہے جو خدمات اور انصاف دونوں فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ آخر میں، دیسی وسائل کی لوٹ مار کے تصورات‘چاہے وہ ثابت شدہ ہوں یا بیانیہ پر مبنی تناؤ میں اضافہ کرتے ہیں۔اندرونی عوامل تنازعہ کو بھڑکاتے ہیں۔ متعدد غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیاں بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے میں اسٹریٹجک مفادات رکھتی ہیں۔ بلوچستان میں باغیوں کی گوریلا حکمت عملی اور بیرونی حمایت کے باعث تنازعے کی بنیادی وجوہات میں اضافہ ہو رہا ہے اور طویل مدتی استحکام کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ بلوچستان میں تشدد ایک علامت ہے۔ بلوچستان میں، ریاست اسے بیماری کے طور پر غلط تشخیص کر رہی ہے۔ بلوچستان میں، ریاست طاقت کا استعمال کرتی ہے جو مرکز اور دائرے کی تقسیم کو وسیع کرنے کا باعث بن رہی ہے اور اس سے بغاوت کو ہوا مل رہی ہے۔ بلوچستان میں پائیدار امن کے لئے بنیادی وجوہات کو شمولیت اور اصلاحات کے ذریعے حل کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ دباؤ کے ذریعے اور صرف اصلاحات (درست تشخیص و علاج) ہی کے ذریعے پائیدار امن قائم کیا جا سکتا ہے۔ (بشکریہ دی نیوز۔ تحریر ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ اَبواَلحسن اِمام)