سیاسی مداخلت

 اگلے روز خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی کے سپیکر نے نہایت ہی برہمی میں یہ کہا کہ بعض اضلاع میں ایسے ڈپٹی کمشنر بیٹھے ہیں جن پر چیف سیکرٹری کا کنٹرول نہیں ‘ہدایت کی گئی تھی َکہ جہاں بھی روٹی مہنگی فروخت ہو تو متعلقہ ڈی سی کو معطل کر دیں افسوس کہ ذمہ داری کا مظاہرہ نہیں کیا گیا مجبور نہ کیا جائے کہ چیف سیکرٹری کو ایوان میں طلب کریں‘ سپیکر صاحب نے جوش خطابت میں واقعی کافی سخت باتیں کی ہیں جو یقینا متعلقہ سرکاری افسروں کے مزاج پر گراں گزری ہوں گی ان کے ارشادات یقینا ایک غیر سیاسی اور غیر جذباتی تجزیئے کے متقاضی ہیں اور ان کو ایک سے زیادہ پہلوﺅں سے پرکھا جا سکتا ہے ‘ماضی بعید میں ڈپٹی کمشنر کے منصب کے لئے صرف اسی افسر کو مستحق سمجھا جاتا کہ جس نے بطور اسسٹنٹ کمشنر کم ازکم دو یا تین سب ڈویژنوں میں کام کیا ہوتا اور اس کی کارکردگی بحیثیت مجموعی تسلی بخش پائی جاتی نیز اس نے ڈیپارٹمنٹل ایگزامینیشن بھی کم ازکم 66 فیصد نمبر لے کر پاس کیا ہوتا کہ جس میں ملک میں نافذ مختلف قوانین کے بارے میں اس کے علم کو پرکھا جاتا۔اسی طرح ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سب ڈویژنل مجسٹریٹ یا کسی بھی مجسٹریٹ درجہ اول کو ضابطہ فوجداری کے سیکشن 30 کے تحت زیادہ اختیارات صرف اسی صورت میں تفویض کئے جاتے کہ جب ہائی کورٹ کی تسلی ہوتی کہ اس نے بحیثیت درجہ اول مجسٹریٹ تسلی بخش عدالتی کام بھی کیا ہوا ہے۔

 اتنی باریکیوں میں آج کل کوئی نہیں جاتا ‘سپیکر صاحب نے روٹی کی قیمت میں اضافہ کو رو کنے کے لئے ڈپٹی کمشنروں کی جو سرزنش کی ہے اس بارے میں اگر ڈپٹی کمشنروں کی بات سنی جائے تو وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے ہاتھ کٹے ہوئے ہیں کیونکہ معاشرے میں جو بھی غلط کام ہو رہا ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مافیا موجود ہے اور اس مافیا کے ہاتھ بہت لمبے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنی نوکری اور اپنی کرسی بچانے کے لیے کئی معاملات میں چشم پوشی کر رہے ہیں اس ضمن میں تیسری بات یہ ہے کہ ماضی بعید میں ضلعی پرائس کنٹرول کمیٹیاں بڑی فعال ہوا کرتی تھیں ڈپٹی کمشنر کی صدارت میں وہ ہر مہینے کم از کم دو مرتبہ تواتر سے اپنا اجلاس منعقد کیا کرتی تھیں ان کمیٹیوں میں صارفین کے نمائندے بھی ہوتے ‘مختلف تجارتی حلقوں کی یونینزکے نمائندے بھی بیٹھے ہوتے ‘شہر کے عمائدین اور صحافیوں سے بھی کچھ افراد منتخب کرکے ان کمیٹیوں میں بٹھا دیئے جاتے ‘ان کمیٹیوں کی پیشگی اجازت کے بغیر تاجر حضرات کسی بھی اشیاءصرف کی قیمت میں ازخود بغیر کسی ٹھوس وجہ کے اضافہ نہیں کر سکتے تھے اور اگر کسی بھی اشیاءکی قیمت میں اضافہ کرنا مقصود ہوتا تو تاجروں کو ان کمیٹیوں کے اجلاس میں ممبران کی سو فیصد تسلی کروانی پڑتی تب کہیں جا کر ڈسٹرکٹ کنٹرول کمیٹی ان کی قیمت میں اضافے کی منظوری دیتی ۔