انجام کار شاہ محمود قریشی صاحب کے لبوں پر وہ بات آ ہی گئی کہ جو ایک عرصہ دراز سے اس ملک کے عوام اس ملک کے حکمرانوں کے منہ سے سننا چاہتے تھے موصوف نے اگلے روز فرمایا کہ او آئی سی اور دوست ملک فیصلہ کریں کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر پاکستان کے ساتھ ہیں یا نہیں وزیر خارجہ صاحب کا یہ بیان نہایت دلیرانہ بیان تھا اوراگر اسی قسم کی کھلی بات ماضی کے حکمران بھی کرتے اور اس بات سے خائف نہ ہوتے کہ اس قسم کے بیان سے فلاں فلاں ملک پاکستان سے ناراض ہو سکتا ہے تو شاید آج صورتحال کافی مختلف ہوتی مانا کہ آج کی دنیا میں ہر ملک دوسرے ملک سے دوطرفہ مفادات کی بنیاد پر اپنے تعلقات استوار کرتا ہے اور اس میں وہ اپنے تجارتی اور دفاعی اور دیگر امور کو ملحوظ خاطر رکھتا ہے پر اگر کسی بھی ملک میں وہاں کے حکمران کسی بھی مذہبی اقلیت کے لوگوں کو بربریت اور مظالم کا نشانہ بنا رہے ہوں تو اس سے کسی طور بھی چشم پوشی نہیں کی جاتی اس لیے یہ بڑی عجیب بات دکھائی دیتی ہے کہ گزشتہ ایک برس سے مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی وادی میں ظلم اور بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے اور اس کی شدت میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے اور دنیا خاموش ہے اکثر احساس ہوتا ہے کہ نریندر مودی کی شکل میں آج برصغیر میں ایک اور ہٹلر موجود ہے کیونکہ بادی النظر میں مودی مسلمانوں کے ساتھ اسی قسم کا سلوک کر رہا ہے کہ جو دوسری جنگ عظیم سے پہلے یا اس کے دوران ہٹلر نے کیا تھا یہ نہیں کہ دنیا کو اس کی خبر نہیں شاید ہی دنیا کا کوئی ملک ایسا ہو کہ جس کے میڈیا میں مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم کی داستان تواتر کے ساتھ چھپتی نہ ہو نجانے اس مسئلے پر دنیا کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے ۔
کوئی بھی ملک ٹس سے مس نہیں ہو رہا افسوس ہوتا ہے او آئی سی کے مسلم ممالک پر کہ جو اس مسئلہ پر لمبی تان کر سو گئے ہیں اس تنظیم کے اراکین نے آج تک دنیا کے مسلمانوں کے حقوق اور نگہداشت کے لئے رتی بھر بھی کام نہیں کیا اب تو دنیا کے اکثر مسلمان یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ او آئی سی کے سفید ہاتھی کے وجود کا آخر جواز کیا ہے کیوں نہ اسے سرے سے ختم ہی کر دیا جائے اگر یہ دنیا میں مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کر سکتی تو پھر اسکا ڈھونگ رچانے کی کیا ضرورت ہے ۔ اس ضمن میں امریکہ کی اسلام دشمنی کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ جب مودی بھارتی گجرات کے وزیراعلیٰ تھے اور ان کے اس دور اقتدار میں جب احمدآباد میں مسلمانوں کو جن ہندو انتہاپسندوںنے گاجر مولی کی طرح کاٹا تو ابتدا میں تو امریکہ میں مودی کے داخلے پر پابندی لگا دی گئی پر دنیا کو اس وقت حیرت ہوئی جب مودی کو موجودہ امریکی صدر نے امریکہ کا دورہ کرنے کی اجازت دی اسے گلے لگایا اور وہاں اس کے جلسہ عام میں ایک تقریر بھی جھاڑدی ایسا کرتے وقت امریکی صدر کو نہ انسانی حقوق یاد آئے اور نہ ہندو ستان میں مودی سرکار کے وہاں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و ستم نظر آئے۔
شملہ معاہدے کے بعد ایک عرصے تک بھارت سے جب بھی یہ مطالبہ کیا جاتا کہ وہ اس قرارداد پر عملدرآمد کرائے کہ جو 1948 میں کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ نے پاس کی تھی تو بھارتی حکمران یہ موقف اختیار کرتے کہ اب پاکستان اور بھارت کے درمیان تمام معاملات شملہ معاہدے کی روشنی میں حل کئے جائیں گے اب جبکہ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی وادی کو بزور شمشیر ہندوستان کا حصہ بنا کر شملہ معاہدہ کو قتل کر کے دفن کر دیا ہے تو اب پاکستان کو اقوام متحدہ میں اور دنیا بھر کے ممالک سے یہ مطالبہ بار بار کرنا چاہیے کہ کشمیر میں ریفرنڈم کرانے کے بارے میں اقوام متحدہ نے 1948 میں جو قرارداد منظور کی تھی اس پر عمل درآمد کرایا جائے۔