ڈھونڈوگے ہمیںملکوںملکوں

 یاد ماضی عذاب ہے یا رب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا ۔اس شعر میں جو ذہنی کیفیت بیان کی گئی ہے وہ ہم پر بھی اس وقت طاری ہوگئی جب ہم نے اخبارات میں یہ خبر پڑھی کہ معروف لکھاری سعدیہ دہلوی کا انتقال ہوگیا ‘وہ گزشتہ دو برسوں سے سینے کے کینسر کے ساتھ بڑی بہادری سے لڑرہی تھیں جو لوگ لٹریچر کے ساتھ شغف رکھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ سعدیہ کو لٹریچر کے ساتھ کتنا زیادہ انس تھا اردو اور انگریزی ادب کے ساتھ ان کی محبت انہیں ورثے میں ملی تھی ‘ایک بڑے عرصے تک ان کے دادا یوسف دہلوی پرانی دہلی سے اردو کا ایک جریدہ ہر مہینے شائع کرتے تھے جس کا نام تھا شمع ان کی وفات کے بعد یہ ذمہ داری 1987ءتک ان کے ساتھ صاحبزادے یونس دہلوی نبھاتے رہے ‘اردو لٹریچر کے ساتھ عشق کرنے والے کروڑوں قارئین کو اس وقت از حد صدمہ ہوا تھا جب شمع جیسے اعلیٰ درجے کا معیاری ماہنامہ بند کیا جا رہا تھا ‘شمع بنیادی طور پر تو ایک فلمی میگزین تھا پر اس میں ہند و پاک کے تمام سقہ اور صفحہ اول کے لکھاریوں کی تحریریں شائع ہوا کرتی تھیں ‘بھلے وہ نثر میں ہوتیں یا نظم میں جس طرح برصغیر کی فلمی دنیا میں انگریزی زبان میں ہر ماہ چھپنے والے انگریزی زبان کے میگزین فلم فیئرکی اپنی ایک ساکھ ہے اپنا ایک منفرد مقام ہے بالکل اسی طرح اردو زبان کے رسالے شمع کو بھی فلمی دنیا اور لٹریچر سے تعلق رکھنے والے حلقوں میں قدر و منزلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا ‘دہلی سے شائع ہونے والے ما ہنامے شمع کی دیکھا دیکھی لاہور سے بھی اسی نام سے کافی عرصہ تک ایک فلمی میگزین شمع لاہور کے نام سے شائع ہوتا رہا پر اس میں وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی۔تو بات ہم نے شروع کی تھی سعدیہ دہلوی کی پر چونکہ وہ ایک ہمہ گیر شخصیت کی مالکہ تھیں لہٰذا ان کا ذکر ذرا طولانی ہوگیا ۔

سعدیہ دہلوی نے انگریزی زبان میں بھی چند کتابیں لکھیں انہیں انگریزی زبان پر بھی اتنا ہی عبور تھا جتنا کہ اردو زبان پر وہ تواتر سے ہندوستان کے صف اول کے انگریزی اخبارات کے لئے لکھا کرتی تھیں وہ ہر قسم کی انتہا پسندی کی سخت مخالف تھیں وہ سیکولر ذہن کی مالکہ تھیں‘بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ جو پبلشنگ ادارہ شمع شائع کرتا تھا وہ دو دوسرے ایسے میگزین بھی چھا پتا جنہوں نے اخبارات اور جریدوں کی دنیا میں اپنی ایک علیحدہ جگہ بنا لی تھی ایک کا نام تھا کھلونا اور دوسرے کا نام تھا بانو سعدیہ دہلوی ‘ایک عرصے تک بانو نامی میگزین کی ادارت کرتی رہیں سعدیہ دہلوی نے برصغیر میں موجود اولیاءکرام کی درگاہوں اور روضوں کے بارے میں میں کافی لکھا اور صوفی ازم کی تاریخ پر بھی ریسرچ کی‘خشونت سنگھ نے اپنی تحریروں میں اکثر جگہ سعدیہ دہلوی کی بحیثیت ایک اچھی رائٹر بڑی تعریف کی ہے ‘خشونت سنگھ اپنی جگہ برصغیر کے ایک ممتاز صحافی تھے جو ایک لمبے عرصے تک صحافت کے ساتھ وابستہ رہے۔

 وہ کافی عرصے تک ہندوستان ٹائمز اورillustrated weekly of India کے ایڈیٹر رہے انہوں نے ایک لمبی عمر پائی اور وہ سو سال کی عمر میں چند سال قبل رحلت فرما گئے‘سعدیہ دہلوی کے انتقال سے یقینا برصغیر کی صحافت کا ایک درخشاں باب اختتام پذیر ہوگیا ہے ‘ماضی قریب میں جس طرح خالد حسن مرحوم نے انگریزی صحافت کو اپنی تحریروں سے ایک نئی جلا بخشی تھی بالکل اسی طرح سعدیہ دہلوی نے بھارتی جرنلزم میں ایک نئی طرح ڈالی ۔ انہوں نے اس دور میں صحافت کے شعبے میں اپنی صلاحیتیں منوائی جب بھارت میں یہ شعبہ خواتین کے لئے مشکلات اور مسائل سے بھرپور تھا تاہم انہوں نے مختلف حوالوں سے جس طرح فلمی اور غیر فلمی صحافت کو آپس میں جوڑے رکھا اس کی مثال مشکل سے ملتی ہے بھارت اور برصغیر کی صحافت میں ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا وہ مشکل سے پر ہو گا۔