مرزا غالب کیا خوب فرما گئے ہیں کہ
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
جب سے ہمارے شعور کی آنکھ کھلی ہے اور ہم نے ہوش سنبھالا ہے تب سے ہی ہم تو یہی دیکھتے اور سنتے چلے آ رہے ہیں کہ یہ ملک بیرونی قرضوں پر چل رہا ہے اس ملک کا ہر حکمران جب اپنے عہدے کا حلف اٹھاتا ہے تو اپنی پہلی تقریر میں وہ قوم سے یہی فریاد کرتا ہے کہ ملک کا خزانہ خالی ہے پچھلے حکمران سب کچھ کھا پی گئے ہیں ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے اس کے بعد وہ ہاتھ میں کشکول اٹھائے بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا دروازہ کھٹکھٹاتا ہے اور ان سے قرضوں کی بھیک مانگتا ہے کاش کہ روز اول سے ہی پاکستانی حکمران 1949 سے لے کر اب تک چین میں برسرِاقتدار آنے والی قیادت سے ہی کچھ سبق سیکھ لیتے آخر انہوں نے بغیر کسی بیرونی قرضے کے اپنے ملک کو کیسے سنبھالا چین تو ہم سے دو سال بعد صحیح معنوں میں آزاد ہوا تھا وہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے جب کہ ہم دن بدن اپنے اوپر قرضہ چڑھا رہے ہیں آخر کیا امر مانع تھا کہ ہم معاشی میدان میں چین کی تقلید کرنے سے قاصر تھے ایک رپورٹ کے مطابق آج اپنی معیشت کو سنبھالنے کے لیے ہم نے چین سے اتنا زیادہ قرضہ لیا ہے کہ وہ اس قرضے سے زیادہ ہے جو کہ ہم نے آئی ایم ایف سے لیا ہوا ہے انگریزی زبان کا ایک محاورہ ہے کہدنیا میں فری لنچ نامی کوئی شے نہیں ہوتی قرضوں پر نظام حکومت چلانا سب سے آسان کام ہوتا ہے پر لانگ ٹرم میں یہ طریقہ کار کسی بھی ملک کی آزادی اور بقاءکے لیے سم قاتل ثابت ہو سکتا ہے قرضہ محبت کی قینچی ہوتا ہے بھلے وہ انفرادی حیثیت پر لیا گیا ہو یا ملکی سطح پر قرضہ لینے والا شخص یا ملک اس فرد یا ملک کی آنکھوں میں اپنی وقعت کھو بیٹھتا ہے کہ جن سے اس نے قرضہ حاصل کیا ہوتا ہے ۔
چند دنوں سے اس ملک کی میڈیا میں یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ سعودی عرب نے پاکستان سے ایک ارب ڈالر واپس لے لیے ہیں جو کہ اس نے قرضے کی صورت میں ہمیں دئیے تھے اور اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ سعودی حکمران پاکستان کے اس بیان پر رنجیدہ ہیں جس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ سعودی عرب کو یہ پیغام گیا ہے کہ اگر او آئی سیOIC کے ممبر اراکین نے کھل کر ہمیں یہ نہ بتایا کہ وہ کشمیر کے مسئلے پر ہمارے ساتھ ہیں یا بھارت کے ساتھ تو پھر ہو سکتا ہے پاکستان عالم اسلام کی اس عالمی تنظیم کے ان اراکین کا اجلاس طلب کر لے کہ جو کشمیر پر ہمارا ساتھ دینے کے لیے تیار ہیں اس بیان پر سعودی حکومت مبینہ طور پر پاکستان سے نالاں ہے اپوزیشن برائے اپوزیشن کا وطیرہ اچھا نہیں ہوتا یہ بات تو طے ہے کہ اگر کسی پاکستانی حکمران نے او آئی سی سے یہ گلہ کیا ہے کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی بھارتی جارحیت پر اپنی آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں تو ایسا کر کے اس نے کیا جرم کیا ہے اس قسم کا بیان تو اس ملک کے تمام عوام کے جذبات کی درست ترجمانی کرتا ہے لہٰذا ہماری سمجھ سے یہ بات باہر ہے کہ بعض سیاسی پارٹیوں کے رہنما کیوں پاکستان کے اس موقف پر حکومت وقت پر تنقید کر رہے ہیں جو ہماری نظر میں بے جا ہے اور عوامی جذبات سے مطابقت نہیں رکھتی۔اب وقت آگیا ہے کہ ملکی مفادات کو ہرحال میں مقدم رکھا جائے اور یہی ہماری خارجہ پالیسی کا خاصہ بھی ہونا چاہئے۔