مسائل کاانبار

 ٹائیگر فورس کو پینتیس لاکھ پودے لگانے کا ہدف تو دے دیا گیا ہے پر یاد رہے کہ خالی خولی پودے لگانے سے کام نہیں بنتا اصل کام یہ ہے کہ ان نئے پودوں کی تقریبا پانچ چھ سال تک نگہداشت بہت ضروری ہوتی ہے تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ماضی میں بھی نئے پودے لگانے کی مشق ہر سال دو تین مرتبہ کی جاتی رہی ہے پر اس کا نتیجہ صفر آتا رہا ہے چین اگر آج ہر سو سرسبز نظر آرہا ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ وہاں درختوں کے کاٹنے پر سخت سزا دی جاتی ہے اپنے ہاں تو ٹمبر مافیا محکمہ جنگلات پر اتنا چھایا ہوا ہے کہ وہ درختوں کی حفاظت کر ہی نہیں سکتا عید الاضحی سے پیشتر اپوزیشن والوں نے شور وغوغا تو کافی مچایا ہوا تھا کہ وہ عید کی تقریبات ختم ہونے کے فوراً بعد آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کرکے حکومت وقت کو چلتا کرنے کے لیے کوئی حکمت عملی وضع کریں گے تادم تحریرا پوزیشن اس معاملے میں تذبذب کا شکار نظر آتی ہے دال میں کچھ نہ کچھ کالا ضرور ہے بعض اپوزیشن لیڈروں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف کدورتیں ضرور موجود ہیں جو وہ کھل کے بات نہیں کرتے اگر نون لیگ اور پی پی پی مولانا فضل الرحمان کے تحفظات دور کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو شاید اس صورت میں آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد ستمبر میں جاکر ممکن ہو سکے۔ فارسی کے مشہور شاعر انوری نے اپنے ایک شعر میں یہ گلہ کیا ہے کہ جو آسمانی بلا زمین پر اترتی ہے وہ وہ انہی کے گھر کا ہی پتہ پوچھتی ہے وطن عزیز کا بھی کچھ یہی حال ہے ایک مصیبت سے اس کی جان چھوٹتی نہیں کہ دوسری اس کے سر پر آن کھڑی ہوتی ہے تازہ ترین بلا طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی شکل میں وطن عزیز پر نازل ہوئی ہے۔

 جس سے کئی قیمتی جانیں موت کے منہ میں چلی گئیں اور کئی شہروں میں زندگی عملاً مفلوج ہو گئی ہے مون سون کی سیلابی بارشیں تو اس ملک کا معمول ہیں دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے متعلقہ میونسپل ادارے اس قدرتی آفت سے نپٹنے کےلئے مو¿ثر انداز میں بروقت تیاری نہیں کرتے اور اس کے لئے کوئی پیش بندی نہیں کرتے جس کی وجہ سے ہر سال وطن عزیز کو مالی اور جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے پاکستان کو مہاتیر محمد جیسے کھلے ڈھلے دوست درکار ہیں کہ جو کشمیر کے مسئلے پر کھل کر اپنے موقف کا اظہار کریں ملائیشیا کے سابق وزیراعظم نے اگلے روز مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر بھارتی حکومت کے مظالم کے خلاف جو آواز بلند کی ہے اس پر بجا طور پر عمران خان صاحب نے ان کو مبارک باد دی ہے اور ان کی تعریف کی ہے یقینا مہاتیر محمد کا یہ بیان ان تمام دوغلے مسلم ممالک کے منہ پر ایک زناٹے دار طمانچہ کے مترادف ہے کہ جن کے منہ میں گھنگنیاں بھری ہوئی ہیں اور وہ کھل کر کشمیر کے بارے میں بات نہیں کرتے‘ منی لانڈرنگ کے تدارک کے ضمن میں حکومت کا یہ موقف بالکل درست ہے کہ بیس لاکھ سے زائد خریداری پر ذرائع آمدن ‘مصرف اور دیگر معلومات دینا ہوںگی منی لانڈرنگ پر اڑھائی کروڑ روپے جرمانہ اور دس سال قید کی سزا بھی کاٹنا ہوگی اس ملک کی معیشت کو دستاویزی بنانے کی جانب اٹھایا جانے والا ہر قدم قابل تعریف ہے اس ملک میں حصہ بقدر جثہ کے تحت ٹیکس تب ہی وصول کیا جا سکتا ہے کہ جب اس ملک کی تمام معیشت کو دستاویزی بنا دیا جائے بعض مفاد پرست طبقے مختلف حیلوں اور بہانوں سے ملک کی معیشت کو دستاویزی بنانے کی مخالفت اس لیے کر رہے ہیں کہ وہ اپنی آمدنی کے حساب سے حکومت کو ٹیکس دینا نہیں چاہتے‘حقیقت یہ ہے کہ وہی ملک ترقی و کامران سے ہمکنار ہو سکتے ہیں جہاں پر شہریوں میں احساس ذمہ داری موجود ہے اور وہ حکومت اپنے حصے کے واجبات ادا کرتے ہیں۔