فرنگیوں کے دور حکومت کی تعریف کرنا ہمارا مقصود نہیں پر کسی حقیقت کو چھپانا بھی کوئی اچھا شیوہ نہیں ہوتا ‘ تقسیم ہند کے وقت انیس سو سینتالیس میں فرنگیوں نے ہمارے لیے ورثے میں جو چند ریاستی ادارے اچھی حالت میں چھوڑے تھے ان میں سول سروس کا ادارہ بھی شامل تھا کسی دور میں ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو ضلعے کا بادشاہ بھی کہا جاتا تھا وہ ہر ضلعے میں مختلف لائنز ڈیپارٹمنٹس کا محور ہوا کرتا تھا اور ان کے درمیان کوآرڈینیشن کا کام بھی کرتا تھا ڈپٹی کمشنرفوجداری مقدمات میں بطور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے فرائض بھی سرانجام دیتا تھا اور ریونیوسائیڈ پر وہ ڈسٹرکٹ کلکٹر بھی تھا یہ بات اس کے فرائض منصبی میں شامل تھی کہ وہ ضلع بھر کے پولیس سٹیشنوں کی کارکردگی پر عقابی نظر رکھے اکثر وہ بغیر پیشگی اطلاع پولیس سٹیشنوں پر چھاپہ بھی مارا کرتا تھا اس بات کی تسلی کر نے کے لئے کہ کسی بے گناہ معصوم فرد کو تھانے کی سلاخوں کے پیچھے تو نہیں ڈال دیا گیا یہاں تک کہ ضلع کا ایس پی اگر ضلع کے اندر کسی پولیس سٹیشن سے کسی تھانے دار کو دوسرے تھانے تبدیل کرنا چاہتا تو اس کےلئے ضروری تھا کہ وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کے ساتھ مشاورت کرے ‘ ریونیو سائیڈ پر ڈپٹی کمشنر یا بالفاظ دیگر ڈسٹرکٹ کلکٹر کی یہ بھی ذمہ داری تھی کہ وہ پٹواری یا گرداور اور یا تحصیلدار کی گئی فصلوں کی خسرہ گرداوری پر سو فیصد یقین نہ کرے بلکہ خود بھی وہ ہر ربیع اور خریف کی فصلوں کی گئی خسرہ گرداوری کا دس فیصد ازخود بھی معائنہ کرے اور کاغذات مال میں دیکھے کہ کہیں نچلے ریونیو سٹاف نے اندرا جات میں کوئی ڈنڈی تو نہیں ماری اسی طرح فوجداری ور ریونیو سائیڈ ڈ پر نچلی سطع کی عدالتوں میں جو مقدمات چل رہے ہوتے ہیں۔
ان پر کام کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لئے ڈپٹی کمشنر ہر ماہ باقاعدگی سے متعلقہ ریونیو سٹاف ور پولیس کے عملے کے ساتھ میٹنگ کرتا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کل یہ سب کچھ ڈپٹی کمشنر کر رہا ہے یا نہیں کیا اسے حکام بالا نے غیر ضروری طور پر پروٹوکول ڈیوٹی میں اتنا زیادہ نہیں پھنسا دیا کہ وہ اب اپنے بنیادی فرائض منصبی کماحقہ سر انجام نہیں دے سکتا اسی طرح ہر صبح صبح اسے مختلف تحصیلدار اور نائب تحصیلدار ضلع کے شہروں میں مختلف اشیاءخوردنی کے تازہ ترین نرخوں سے تحریری طور پر آگاہ کرتے جو وہ صبح صبح مختلف منڈیوں سے حاصل کرتے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پوری طرح باخبر ہوتا کہ مارکیٹ میں اشیائے صرف کی ڈیمانڈ اور سپلائی کی کیا پوزیشن ہے اور اگر کسی اشیاءصرف یا خوردنی کے نرخ میں اضافہ ہوا ہے تو اس کی بنیادی وجہ کیا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے کہ جن سے عوام کی جیبوں پر براہ راست اثر پڑتا ہے اپنے آپ کو باخبر رکھتا اور پھر اپنی دانست کے مطابق موقع پر خود ہی مناسب فیصلے کرتا اس ضمن میں وہ ہر ماہ ڈسٹرکٹ پرائس ریویو کمیٹی کا باقاعدگی سے اجلاس کرتا تجربے نے بتایا کہ جب تک شہروں کے میونسپل معاملات کی نگرانی بھی ڈپٹی کمشنر کے پاس ہوتی تھی تو میونسپل اداروں کے معاملات بھی قدرے بہتر تھے کیونکہ ان میں سیاسی مداخلت کا احتمال نہ ہونے کے برابر تھا سول سروس میں انٹری فیڈرل پبلک کمیشن اور صوبائی پبلک سروس کمیشنوں کے منعقد کردہ مقابلے کے امتحانوں کے ذریعے ہوتی اور شاذ ہی کبھی ایسا ہوتا کہ ان کی سلیکشن میں میرٹ کے علاوہ کسی اور وجہ کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا اس شفا ف قسم کے بھرتی کے نظام میں پہلی نقب اس وقت لگائی گئی۔
جبlateral entry یا horizontal entry کے نام پر حکمرانوں نے اپنے منظور نظر افراد کو سول سروس میں اہم انتظامی آسامیوں پر تعینات کرنا شروع کردیا چنانچہ کئی ایسے افراد کو براہ راست ڈپٹی کمشنر یا پولیٹیکل ایجنٹ لگا دیا گیا کہ جنہوں نے نہ تو اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے کام کیا تھا اور نہ وہ کبھی اسسٹنٹ پولیٹیکل ایجنٹ رہے تھے آپ خود ہی اندازہ لگائیے کہ جس شخص نے بطور اسسٹنٹ کمشنر جو بلحاظ عہدہ سب ڈویژن میں سب ڈویڑنل مجسٹریٹ بھی ہوتا ہے اس نے بطور ایس ڈی ایم ایک دن بھی کام نہ کیا ہو تو وہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی فوجداری قانون کی ذمہ داریاں کیسے احسن طور پر نبھا سکے گا اسی طرح ریونیو سائیڈ پر وہ افسر خاک اچھا کام کر سکے گا کہ جو ریونیو کے قانون کی ابجد سے واقف نہ ہو ڈپٹی کمشنر کا ادارہ یقینا ایک پرکشش ادارہ ہے پر یہ ادارہ بے پناہ ذمہ داریوں کا تقاضہ کرتا ہے ماضی میں سول سروس کے جو بہترین افسر ہوتے تھے جنہیں سرکاری زبان میں کریم cream کہا جاتا تھااس منصب پر صرف انہیں ہی بٹھایا جاتا تھا دکھ کی بات ہے کہ حکمرانوں نے ڈپٹی کمشنر کے ادارے کے منہ سے دانت نکالتے وقت یہ نہ سوچا کہ اس سے ضلع میں گڈ گورننس کا ستیا ناس ہو جائے گا اور ضلع کی سطح پر کوئی ایسا ا موثر ادارہ موجود نہیں رہے گا جو تمام لائنز ڈیپارٹمنٹ کو ساتھ لے کر چلے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ ضلع کی سطح پر حکومتی منشور پر سو فیصد عمل درآمد کریں آج زمینی حقائق یہ ہوگئے ہیں کہ حکمرانوں نے ڈپٹی کمشنر کو گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے۔
ان کی یاداشت کے لئے عرض ہے کہ 1948 میں جب کراچی میں ہندوستان سے آئے ہوئے مہاجرین کے لئے گھروں اور زمینوں کی الاٹمنٹ ہو رہی تھی تو جو کمیٹی یہ کام سرانجام دے رہی تھی اس کا سربراہ اس وقت کا کراچی کا کمشنر سید ہاشم رضا تھا ایک دن ایک پرانا مسلم لیگی جسکو قائد اعظم بڑی اچھی طرح جانتے تھے اور ان کی تحریک پاکستان کے لیے خدمات سے سے باخبر تھے ان سے ملنے آیا اور انہیں درخواست دی کہ اس پر وہ کمشنر کراچی کوذرا سفارش کر دیں کہ اس نے گھر کی الاٹمنٹ کے لیے جو درخواست دے رکھی ہے اسے وہ ترجیحی بنیاد پر اسے جلدی گھر الاٹ کر دیں قائداعظم نے مسکرا کر اس شخص کو در خواست واپس کرتے ہوئے کہا کہ وہ نہیں چاہتے کہ کمشنر کے کام میں سیاسی مداخلت کریں ہم قائداعظم جیسا شخص اب کہاں سے لائیں کیا آج جب کہ قبائلی علاقوں کی آزادانہ حیثیت ختم کردی گئی ہے کمشنر کے عہدے کو رکھنے کا کوئی جواز ہے اس پر بحث ہم کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں ۔