ایک قابل تعریف فیصلہ

 یہ تو ہم نے سنا بھی ہے اور دیکھا بھی ہے کہ شادی بیاہ کی تقریب کے دوران بینڈ باجے بھی بجائے جاتے ہیں اور دولہے کو گھوڑے یا بگھی پر بھی بٹھایا جاتا ہے سرکاری ملازمین کے تبادلوں کے وقت انہیں الوداعی دعوتیں بھی دی جاتی ہیں پر اگلے روز لاہور میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کے ساہیوال تبادلے کے وقت جو ماجرا دیکھنے میں آیا وہ اپنی نوعیت کا منفرد واقعہ تھا غیر روایتی الوداعی تقریب پر چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج لاہور سمیت سات ججز کو فوری طور پر او ایس ڈی بنا دیا گیا بالفاظ دیگر ان کو کھڈے لائن لگا دیا گیا اس ضمن میں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں دکھایا گیا کہ لاہور سے ساہیوال تبدیل ہونے والے سیشن جج کو بینڈ باجے کے ساتھ ایک بگھی میں سوار کر کے لایا جا رہا ہے لاہور کینٹ کے جوڈیشل افسران انہیں ہار پہنا رہے ہیں اور ان پر پتیاں نچھاور کر رہے ہیں اس کے پس منظر میں ملی نغموں کے ساتھ ساتھ ہندوستانی گانوں کی دھنیں بھی بج رہی ہیں دوسری ویڈیو میں خواتین ججز اور خواتین وکلاءجج پر پھولوں کی پتیاں نچھاور کرتی دکھائی گئی ہیں ذرائع کا کہنا ہے کہ الودعی تقریب جوڈیشری کی روایت ہے لیکن اس تقریب میں جو انداز اپنایا گیا وہ اس کے شایان شان نہیں تھا عوامی حلقوں نے چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کے اس حکم کو سراہا ہے جس میں انہوں نے فوری طور پر ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے صاحب تقریب سمیت کے ساتھ سات ججز کو او ایس ڈی بنا دیا گیا ہے۔

عدلیہ کے ججوں کے ظابطہ اخلاق کا تقاضہ ہے کہ وہ وکلاءبرادری کے ساتھ مراسم میں ایک محتاط فاصلہ رکھیں اور ان کے معمولات زندگی اور رویوں سے یہ بالکل ظاہر نہ ہو کہ وہ وکلاءکے کسی خاص گروپ کی طرف زیادہ راغب یا مائل ہیں یا ان کے لئے اپنے دل میں کوئی نرم گوشہ رکھتے ہیں اسی طرح وکلاءبرادری میں سنجیدہ قسم کے وکلاءبھی ججوں کے ساتھ زیادہ فری free ہونے کی کوشش نہیں کرتے البتہ وہ ایک دوسرے کے لئے باہمی احترام ضرور رکھتے ہیں کیونکہ بنچ اور بار کا آپس میں تعاون انصاف کے فروغ کے لئے نہایت ضروری ہے پرانے وکلاءآپ کو بتائیں گے کہ وکیل ان ججوں کو نہایت عزت و احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں کہ جن کی سوشل لائف نہ ہونےکے برابر ہو ایسے جج آج بھی عدلیہ میں ضرور موجود ہیں کہ جو نجی اور سرکاری تقریبات مثلا ظہرانوں عصرانوں اور عشا ئیوں میں شرکت کرنے سے گریز کرتے ہیں ان کی نظر میں تمام وکلاءبرابر ہوتے ہیں پرانے ماہرین قانون کی دانست میں ججوں کو صرف اپنے تحریری فیصلوں کے ذریعے بولنا چاہیے جوڈیشل ایکٹیوزم کے بارے میں بھی وکلاءبرادری میں دو آراءپائی جاتی ہیں ایک طبقے کا خیال ہے کہ عدلیہ کو اس کا بھرپور استعمال کرنا چاہیے کہ اس سے ان افراد کی دادرسی ہوتی ہے کہ جن کو دیگر ریاستی اداروں سے انصاف میسر نہیں ہوتا اس کے علی الرغم دوسری رائے یہ ہے کہ عدلیہ کی حد سے زیادہ انتظامی امور میں مداخلت سے انتظامیہ مفلوج ہو کر رہ جاتی ہے اور اس میں پراعتماد انداز کے ساتھ کوئی قدم اٹھانے کی صلاحیت ختم ہو کر رہ جاتی ہے جس کا پھر منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انتظامی افسر بددل ہوکر دل جمعی سے کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں ۔