لوکل گورنمنٹ کوبااختیارکریں

 عدالت عظمی کے جج صاحبان نے حکومت سندھ کے نا گفتہ بہ میونسپل معاملات کے بارے میں اگلے روز جو ریمارکس دئیے ہیں وہ حکومت سندھ کی توجہ کے خصوصی طور پر مستحق ہیں جبکہ مرکزی حکومت کو بھی ان امور کی طرف اپنی توجہ مبذول کرنی چاہئے کیونکہ ملک کے دیگر شہروں کے میونسپل حالات بھی کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں اور وہ بھی کم و بیش کراچی کے میونسپل معاملات کی طرح ہی ہیں ملک کے کئی شہروں میں جگہ جگہ گندگی کے ڈھیراور سرکاری زمینوں پر تجاوزات ایک معمول سا بن گئے ہیں اب تو شہروں میں رہنے والے اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ ان شہروں کے میونسپل معاملات کبھی اچھے بھی ہوں گے یا نہیں۔ وقت آ چکا ہے جب حکومت اس ضمن میں دو ٹوک فیصلہ کرے یا تو وہ میونسپل اداروں کو ضلع کے ڈپٹی کمشنروں کے حوالے کرے کہ جس طرح ماضی بعید میں کسی دور میں تھا

 

اور یا پھر مکمل طور پر نچلی سطح پر اختیارات کی صحیح معنوں میں منتقلی کے لئے لوکل گورنمنٹ کا غیر سیاسی بنیادوں پر الیکشن کروائے اور میونسپل معاملات منتخب لوکل گورنمنٹ کے نمائندوں کے حوالے کر دے اور ان کو صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کے تسلط سے سو فیصد آزاد کردے جب تک صوبائی اسمبلی کے اراکین نچلی سطح پر لوکل گورنمنٹ کے اداروں کے کام کاج میں مداخلت کرتے رہیں گے حالات اچھے ہونے کے کوئی امکانات نہیں ہیں دراصل حالات اس لیے خراب ہیں کہ یہ سب اختیارات کی جنگ ہے صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ہر معاملے میں اپنی ٹانگ اڑانا چاہتے ہیں اور اگر اس ملک میں لوکل گورنمنٹ کی سطح سے منتخب افراد ترقی کر کے اوپر نہیں آ رہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کو اپنے اختیارات استعمال کرنے کی کلی اجازت نہیں دی جا رہی نہ ان کو ان کا بجٹ دیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کی کسی بات کو درخور اعتنا سمجھا جاتا ہے

 

یہ بات تو طے ہے کہ پارلیمانی جمہوریت میں اراکین پارلیمنٹ بھلے وہ قومی اسمبلی میں بیٹھتے ہوں یا صوبائی اسمبلیوں کے ممبران ہوں یا سینٹ کے ‘ان کا بنیادی کام صرف اور صرف قانون سازی ہوتا ہے اگر کسی شعبے کو بہتر بنانے کے لئے وہاں نئے قانون کی ضرورت ہے تو آئین کے تحت یہ ذمہ داری اراکین پارلیمنٹ پر عائد ہوتی ہے کہ وہ مغز ماری کر کے بحث ومباحث کے ذریعے قانون پاس کریں اگر یہ محسوس کیا جاتا ہو کہ کسی قانون میں سقم رہ گیا ہے اور اس میں ترمیم کی ضرورت ہے تو اس صورت میں اراکین پارلیمنٹ مناسب ترمیم کے لئے قانون سازی کرتے ہیں یہ بڑی عجیب بات تھی کہ ضیاءدور میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ہر رکن اسمبلی کو ہر سال ایک موٹی رقم کہ جو کروڑوں میں ہوتی ہے اپنے اپنے انتخابی حلقے میں ترقیاتی کام کرنے کے لئے دی جائے گی اس وقت اکثر سیاسی مبصرین نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اس سے اجتناب کیا جائے اس رقم کا بہترین مصرف صرف اسی صورت میں ہو سکتا ہے کہ اسے لوکل گورنمنٹ کے منتخب اداروں کے حوالے کیا جائے تاکہ وہ نچلی سطح پر ضروری چھوٹے موٹے کام عوام کی بہتری اور سہولت کے لیے کرسکیں مقام افسوس ہے کہ موجودہ حکومت نے الیکشن میں یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ یہ رقم اراکین اسمبلی میں تقسیم نہیں کرے گی کیونکہ وہ اسے سیاسی رشوت سمجھتی ہے افسوس اب تک اس نے اپنے اس وعدے کو ایفا نہیں کیا۔