افغانستان کیلئے ویزا سسٹم

یہ خبر خوش آئند ہے کہ افواج پاکستان نے پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا جوکام شروع کیا ہوا ہے وہ تقریباً 90 فیصد تک مکمل ہو چکا ہے‘ دیکھا جائے تو یہ اقدام بالکل بروقت اور مناسب ہے کیونکہ ایسے حالات میں کہ جب افغانستان میں چھپے دہشت گرد سرحد پار سے تخریبی کاروائیاں کرتے رہتے ہیں پاک افغان بارڈ پر باڑ لگانا دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔دنیا میں کوئی ایسا ملک نہیں جہاں سرحدات پر بغیر کسی رکاوٹ کے آمدورفت جاری ہو ،پاکستان اور افغانستان کے درمیان جو تجارتی راستے موجود ہیںانہی کے ذریعے آنا جانا اور تجارتی سرگرمیوں کو جاری رکھنا ہی مناسب پالیسی ہے دوسری صورت میں بھارت افغان حکومتوں کے ساتھ قربت کا بھرپور فائدہ اٹھاتا رہا اور اس نے پاکستان کے اندر تخریب کاری کی کارروائیاں کرنے کے لئے افغانستان کی سرزمین کا استعمال کیا پاکستان کے پاس بجز اس کے کوئی راستہ ہی نہیں تھا کہ وہ افغانستان سے ملنے والی اپنی سرحدات کو محفوظ بنانے کے لئے اس کی fencing کرتا اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی مناسب نگہداشت کے لئے جگہ جگہ فوجی قلعے بناتا جب پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا کام شروع ہوا تو افغانستان نے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا کہ کسی نہ کسی طریقے سے یہ باڑ نصب نہ کی جا سکے پر حکومت پاکستان اور افواج پاکستان نے نہایت اولعزمی اور یکسوئی کے ساتھ ساتھ کسی دھمکی سے بلیک میل ہونے کی بجائے اس منصوبے پر کام جاری رکھا اور عنقریب یہ کام پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔

 باڑ لگانے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہونا چاہئے کہ حکومت افغانستان کے ساتھ امیگریشن کے معاملات بھی تیزی کے ساتھ طے کرے۔ جہاں تک افغانیوں کے پاکستان میں آنے جانے کا تعلق ہے تو ان کے لئے ویزا سسٹم کو ابھی تک فول پروف بنیادوں پر ریگولیٹ نہیں کیا گیا یہ معاملہ ابھی تک سست روی کا شکار ہے افغانی بےشک پاکستان آیا جایا کریں کہ پاکستانیوں کے ساتھ ان کی رشتہ داریاں ہیں اور ان کے عزیز و اقارب اس ملک میں کافی تعداد میں بستے ہیں پر ہر کام کا ایک طریقہ کار ہوتا ہے وہ اگر تعلیم حاصل کرنے کے لئے یہاں آتے ہیں یا تجارت کے حصول کے لئے یا علاج معالجے کی خاطر تو ان امور کو حل کرنے کے لئے ایک جامع امیگریشن پالیسی کو اب تک مرتب کر لینا چاہئے تھا پر نہ جانے اس کے لئے کی جانے والی کاغذی تیاریوں پر اتنا زیادہ وقت کیوں ضائع کر دیا گیا ہے اسی طرح ایران کے ساتھ پاکستان کا جو بارڈر ملتا ہے۔

 اس پر بھی کڑی نگرانی رکھنے کی ضرورت اس لئے ہے کہ بھارتی ایجنٹ کلبھوشن کی گرفتاری سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ بھارت پاکستان کی جڑوں میں پانی دینے کے لئے کچھ بھی کر سکتا ہے‘ یہ عالم اسلام کی بدقسمتی ہے کہ ایک مذہب کے پیروکار ہونے کے باوجود سیاسی طور پراسلامی ملک ایک پیج پر اب تک نہیں آ سکے افغانستان اور ایران کی جو سرحدات پاکستان سے ملتی ہیں ان پر باڑ لگا کر ہم کافی حد تک اپنی جغرافیائی حدود کو محفوظ کر سکتے ہیں اور اگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت نے افغانیوں کے پاکستان میں آنے جانے کے نظام کو ایک مضبوط اور فول پروف ویزا سسٹم کے تابع کر دیا تو کم از کم بھارت افغانستان اور ایران کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف تخریبی کارروائیوں کے لئے استعمال نہیں کر سکے گا ۔