اسرائیل اور عرب امارات کے درمیان حال ہی میں محبت کی جو پینگیں قائم ہوئی ہیں ان پر نہ جانے کیوں ہمیں چین کے حکمرانوں کی سیاسی بلوغت فراست بصیرت اور دور اندیشی یاد آگئی ایک زمانہ تھا کہ جب چین کی بھی تعلیمی سائنسی اور معاشی حالت اتنی ہی پتلی اور زبوں حال تھی کہ جتنی آج کل اکثر مسلم ممالک کی ہے اور وہ تقریبا تقریبا ہر معاملے میں مغرب کے محتاج نظر آتے ہیں ‘ چینیوں کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ بہت دور کی سوچتے ہیں چنانچہ جب انیس سو انچاس میں ماوزے تنگ کی عالمانہ قیادت میں چین کے عوام صحیح معنوں میں آزادی سے ہمکنار ہوئے تو چینی قیادت نے بجا سوچا کہ سب سے پہلے جو کام انہوں نے کرنا ہے وہ یہ ہے کہ چین کو ہر شعبہ زندگی میں مضبوط سے مضبوط تر بنانا ہے ایک مرتبہ جب وہ صحیح معنوں میں اپنے پاو¿ں پر کھڑے ہو جائیں گے تو اس صورت میں پھر وہ اپنے پرانے مغربی حریف ممالک یعنی امریکا وغیرہ کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کے قابل ہو سکیں گے اور دنیا کا کوئی ملک بھی انہیں سیاسی طور پر بلیک میل نہیں کر سکے گا چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ تاوقتیکہ وہ سائنسی تعلیمی اور معاشی میدان میں اعلی مقام حاصل نہیں کر لیتے وہ اپنے آپ کو کسی مسئلے میں نہیں الجھائیں گے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ چینی قیادت نے انیس سو پچاس سے لے کر 2014 تک کمال حوصلے اور برداشت کا مظاہرہ کیا اس دوران چین کے مخالف ممالک نے ہزار کوشش کی کہ کسی نہ کسی طریقے سے کسی نہ کسی حرکت کے ذریعے چین کو اشتعال میں لا کر کسی جنگ میں الجھایا جائے بھلے وہ تائیوان کا مسئلہ ہو یا ہانگ کانگ کا یا کسی اور مسئلہ پر ہر مرتبہ چین اپنا غصہ پی گیا اور اس نے تحمل کا مظاہرہ کیا۔
اس نے سر جھکا کر اپنی تمام تر توجہ اپنی سائنسی اور تعلیمی ترقی پر مرکوز رکھی حتیٰ کہ وہ2014 میں ایسی پوزیشن پر آگیا کہ امریکہ جیسا ملک بھی اس کا قرض دار بن گیا چین کی مثال دینے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کا کوئی ملک کسی ایسے ملک کو گھاس نہیں ڈالتا کہ جو صرف لاف زنی ہی کرے اور عملی طور پر کوئی کام نہ کرے، دنیا کے کئی اسلامی ممالک قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں پر ان کے حکمرانوں کو صرف ذاتی نمودو نمائش اور آرام دہ زندگی گزارنے کی لت پڑی ہوئی ہے وہ ہر وقت اسی چکر میں رہتے ہیں کہ دنیا کے ہر حصے میں مہنگی سے مہنگی پراپرٹی خریدیں اپنے سفر کےلئے جدید ترین پرتعیش ہوائی جہاز خریدیں‘آج عالم اسلام کی یہ حالت ہے کہ اس کے اکثر ممالک اسرائیل کے آگے پر نہیں مار سکتے دنیا میں او آئی سی کی شکل میں اسلامی ملکوں کا ایک بین الاقوامی سطح پر ادارہ تو موجود ہے ۔
پر اس کے منہ میں دانت ہی نہیں ‘فلسطین کے مسئلے پر اسلامی ممالک میں اتفاق کے بجائے آدھے ممالک ایک طرف کھڑے ہیں تو آدھے دوسری طرف ‘ اسرائیل کی شکل میں ایک چھوٹے سے ملک نے پوری اسلامی دنیا کو ایک وختے میں ڈال رکھا ہے چونکہ پوری اسلامی دنیا میں آج ایک ملک بھی ایسا نہیں کہ جو چین کی طرح اپنے زور بازو پر دنیا میں کوئی منفرد مقام رکھتا ہو لہذا کوئی بھی غیر اسلامی ملک کسی بھی اسلامی ملک کو کسی کھاتے میں شمار ہی نہیں کرتا عرب امارات اسرائیل کے ساتھ دوستی کے سفر پر چل نکلا ہے اور فلسطین کے مسئلے کو پس پشت ڈال دیا ہے آج نہیں تو کل دیگر عرب ممالک بھی اسی روش کی پیروی کریں گے ‘ بات بڑی سادہ اور مختصر ہے اگر مسلمانوں کو اپنی عظمت رفتہ حاصل کرنی ہے اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ دنیا ان کی بات پر اپنے کان دھرے تو انہیں کم از کم کم بیس تیس برس زندگی کے ہر شعبے میں اسی طرح محنت کرنی ہوگی کہ جس طرح چینیوں نے 1949 اور 2014 کے درمیان کی ہے دنیا میں اعلی مقام حاصل کرنے کے لیے کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے ۔