کسی زمانے میں نوابزادہ نصراللہ خان کو حکومتوں کے خلاف سیاسی تحریکیں چلانے میں ید طولیٰ حاصل تھا اس ملک کی سیاسی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک سے زیادہ سیاسی تحریکوں کے خالق تھے لاہور میں ان کی رہائش گاہ سیاسی تحریکوں کے محور کا کام دیتی تھی ایک مرتبہ جب ایک اخبار نویس نے ان سے یہ سوال کیا کہ جمہوری نظام کی خرابیوں کو کیسے رفع کیا جا سکتا ہے تو انہوں نے ایک بڑا معنی خیز جملہ کہا انہوں نے اسے جواب دیا کہ جمہوری نظام کی خرابیوں کو درست کرنےکا واحد علاج یہ ہے کہ اس میں مزید جمہوریت کی آمیزش کر دی جائے حکومت وقت کے خلاف اپوزیشن جماعتوں کو ایک سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کرنا نوابزادہ نصراللہ خان کے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا ان کے پاس کوئی ایسی جادو گری ضرور تھی کہ آپس میں سیاسی رقابت رکھنے والے سیاسی گروپس ان کی آواز پر لبیک کہہ کر یکجا ہو جایا کرتے تھے دور حاضر میں مولانا فضل الرحمان صاحب کی شکل میں ہم ایک ایسی سیاسی شخصیت کو اُبھرتا دیکھ رہے ہیں کہ جن میں نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کی ایک ہلکی سی جھلک ضرور نظر آتی ہے نوابزادہ نصراللہ خان صاحب کی طرح مولاناصاحب بھی سیاسی مذاکرات کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کرتے وہ کبھی بھی پوائنٹ آف نور یٹرن پر نہیں جاتے اپنے کواڑ کو وہ ہر وقت کھلا رکھتے ہیں یہ ہنر انہوں نے ایک لمبے عرصے تک میدان سیاست میں ریاضت کرنے کے بعد سیکھا ہے ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ 1977 میں جب پی این اے کے طویل مذاکرات ہو رہے تھے تو ان میں وہ ہر وقت اپنے والد مرحوم مفتی محمود صاحب کے دائیں بائیں موجود رہتے تھے جو اس وقت پی این اے کی مذاکراتی ٹیم کے سرکردہ رکن تھے سیاسی مذاکرات کرنے کا ہنر اس لیے انہیں ورثے میں بھی ملا ہے۔
یہ لمبی کتھا کہانی ہم نے اس لئے لکھی اور اس طویل تمہید کی ہمیں ضرورت اس لئے محسوس ہوئی کہ آج کل پھر میدان سیاست گرم ہونے والا ہے آل پارٹیز کانفرنس کا چرچہ پھرچل نکلا ہے‘ شاید اپوزیشن کی بیشتر سیاسی جماعتیں کسی ایک نقطے پر سیاسی تحریک چلانے پر متفق ہو جائیں گو بظاہر سرے دست یہ کام اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور نظر آ رہا ہے پر مولانا فضل الرحمن صاحب نے ابھی ہمت نہیں ہاری اور وہ فرداً فرداً تمام اہم سیاسی جماعتوں کے رہنماو¿ںسے اس معاملے میں گفت و شنید کر رہے ہیں انہیں امید ہے کہ آج نہیں تو کل برف ضرور پگھل جائے گی۔تمام اہم سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر لانے کےلئے مولانا فضل الرحمن صاحب جو کاوش کر رہے ہیں اس میں بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ نون لیگ اور پی پی پی کے بعض رہنما ایک دوسرے پر کلی اعتماد نہیں کرتے اور ان میں بعد المشرقین ہے ان کے درمیان باہمی بد اعتمادی کی بہت بڑی خلیج ہے زرداری صاحب کا تازہ ترین بیان بڑا معنی خیز ہے کہ نون لیگ والے ان سے مشورہ کیے بغیر اکثر حکومت سے پس پردہ ڈیل کر لیا کرتے ہیں ۔آئندہ چند دنوں میں اس بات کا پتہ چل ہی جائے گا گا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے اگر توحکومت ملک کی معیشت کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کرنے میں میں کامیاب ہوجاتی ہے اور اشیائے خوردنی اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں خاطر خوا خواہ کمی دکھائی دیتی ہے تو اس صورت میں شاید اپوزیشن کے غبارے میں سے ہوا نکل جائے پر اگر حالات جوں کے توں رہتے ہیں اور اس ملک کے عوام مہنگائی کے بوجھ تلے مزید پستے ہیں تو اپوزیشن کی سیاسی تحریک زور پکڑ سکتی ہے کیونکہ حالات جس موڑ پر پہنچے ہیں وہاں عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔