کراچی والوں کی سنی گئی ؟

کراچی کا بیڑہ اسلئے غرق ہوا ہے کہ اس کے جو سٹیک ہولڈرز ہیں ان کے درمیان اختیارات کی تقسیم اور استعمال پر ایک عرصے سے اعلانیہ اور غیر اعلانیہ جنگ ہورہی ہے اس باہمی چپقلش میں اگر کسی کا نقصان ہو رہا ہے تو وہ کراچی کے باسی ہیں ان حالات کے پیش نظر یہ بات خوش آئند ہے کہ پی ٹی آئی ‘ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے مابین ایک سمجھوتا طے پا گیا ہے جس کے تحت کراچی میں ان تینوں کی مشاورت سے ایک ایڈمنسٹریٹر لانے پر اتفاق ہوا ہے آئندہ وفاق اور سندھ مل کر کام کریں گے اور اس ضمن میں کراچی کی ترقی کے لئے ایک نگران کمیٹی کی تشکیل بھی دی گئی ہے ۔ کراچی کے مسائل سمجھنے کےلئے ضروری ہے کہ ان عوامل کا احاطہ کیا جائے کہ جن کی وجہ سے یہ شہر ایک شہر ناپرسان بن چکا ہے ہلکی سی بارش ہو تو اس کی سڑکیں دریا بن جاتی ہیں بلڈنگ مافیا اتنا مضبوط اور مادر پدر آزاد ہو چکا ہے کہ جہاں اس کا جی چاہے وہ سرکاری اراضیات پر قبضہ جما لیتا ہے اور پولیس اس کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتی کراچی کے کچرے کو ٹھکانے لگانے کا کوئی بندوبست ہے ہی نہیں سندھ کے دارالحکومت پر یہ مقولہ سو فیصد صادق آتا ہے کہ اونٹ رے اونٹ تیری کون سی کل سیدھی کراچی ایک کاسمو پولیٹن شہر ہے کہ جس میں مختلف زبانیں بولنے والے لوگ آباد ہیں۔

 جو معاش کی تلاش میں ملک بھر سے وہاں1947سے لے کر اب تک تواتر سے آکر آباد ہو رہے ہیں اور انہی کے دم سے اس شہر کی معیشت کو چار چاند لگے ہوئے ہیں اس شہر کے میونسپل معاملات کا اندازہ آپ اس بات سے سے لگا لیجیے کہ کراچی میں صفائی اور ستھرائی کی یہ حالت تھی کہ ماضی بعید میں ہر رات 12 بجے کراچی میونسپل کارپوریشن کے واٹر ٹینکر اس کی سڑکوں کو دھویا کرتے اس شہر میں لسانیت جیسی لعنت کا سرے سے وجود ہی نہ تھا بھائی چارے کا یہ عالم تھا کہ مختلف زبانیں بولنے والے آپس میں امن و آشتی اور پیار محبت کی فضا میں اپنا اپنا رزق کماتے‘ کراچی کا امن عامہ فاطمہ جناح اور ایوب خان کے الیکشن کے بعد سے خراب ہونا شروع ہوا اور لسانیت کی بنیاد پر بننے والے سیاسی گروپوں نے ایک دوسرے کو ہر میدان میں نیچا دکھانے کا سلسلہ شروع کر دیا جو ہنوز جاری ہے گو اس کی شکل بدل گئی ہے‘ ممتاز علی بھٹو جب سندھ کے وزیر اعلی تھے تو وہاں پر شدید قسم کے لسانی فسادات ہوئے تھے جس سے سیاسی گروپوں کی خلیج مزید گہری ہو گئی اور یہ سلسلہ مختلف ادوار میں مختلف صورتوں میں جاری رہا۔

جس کے اثرات یہ سامنے آئے کہ کراچی جسے روشنیوںکاشہر کہا جاتا تھا اندھیروں میں گھر گیا اور یہاں کے باسی بد ترین حالات سے گزرے۔ ایک وقت تھا کہ کراچی کو باہر ملک میں بیٹھ کر کنٹرول کیا جاتا اور وہاں سے ایک اشارے پر یہاں پورا شہر جام ہوجاتا۔ اب خدا کے فضل سے وہ دن گئے اور کراچی کو یہاں پر رہنے والے ہی کنٹرول کرتے ہیں۔ یہاں پراہم فیصلے کرنے والے یہاں پربیٹھے ہیں۔ہڑتالوں اور بندشوں کاسلسلہ تم گیا ہے اور کورونا وبا کے باعث بند بازار کھلنے لگے ہیں۔ ایسے میں جو موافقت اور مفاہمت کی خبریں آرہی ہیں تو یہ بہت خوش آئند ہیں ورنہ تو اس سے قابل کراچی میں رہنے والوں کو ایک دوسرے سے دست وگریبان کر دیا گیا تھا۔ اردو اور سندھی کی تفریق بیچ میں ڈالی گئی تھی۔ دیر آید درست آید اب اگر جا کر ان متحارب گروپوں کے کرتا دھرتوں کو ہوش آیا ہے کہ اگر یہی روش جاری رہی تو کسی کو بھی فائدہ نہیں پہنچے گا تو یہ خوشی کی بات ہے کراچی میں ایک سے زیادہ سیاسی پارٹیوں کا اپنا علیحدہ ایک حلقہ احباب ہے اور ہر ایک کو پتہ ہے کہ کراچی کے کس حصے اور علاقے میں کس سیاسی پارٹی کی اکثریت ہے اس لیے ضروری ہے کہ کراچی میں جتنے بھی سیاسی گروپس موجود ہیں وہ ایک دوسرے کی اہمیت اور اکثریت کو دل و جان سے تسلیم کریں اور ان کا احترام کریں کہ اسی میں کراچی کی بھی بہتری ہے اور ان کی اپنی بھی ۔حقیقت یہ ہے کراچی کو منی پاکستان کہتے ہیں تو یہاں کے اثرات پورے ملک پر مرتب ہوتے ہیں۔

 یہاں پر اگر خوشحالی اور امن کادور دورہ ہے تو پورے میں اسے محسوس کیا جا سکتا ہے اوریہاں پر بے چینی کی جھلک بھی پورے ملک میں دیکھنے کوملتی ہے۔ اب اگر یہاں پر اتفاق اور اتحاد کے ساتھ ایک لائحہ عمل سامنے آتا ہے اور اس شہر کے دیرینہ مسائل کی طرف بھر پورتوجہ دی جاتی ہے تو یہ نہ صرف کراچی بلکہ پورے ملک کی معیشت اور خوشحالی کیلئے دوررس اثرات کا حامل فیصلہ ہے۔ایسے میں اگر یہاں پر اٹھائے گئے قدم کو ماڈل سمجھ کر پورے ملک تک پھیلانے کی بھی کوشش کی جائے تو اس میںکیا مضائقہ ہے اگر کراچی میں مخالفین کے ساتھ ملک کر ملکی مفادات کیلئے چلا جا سکتا ہے تو پورے ملک میں اگر حزب اختلاف کو ساتھ ملا کر سیاسی ہم آہنگی کی فضاءقائم کی جائے تو یہ ایک بہت ہی بہتر قدم ہوگا۔ تاہم اس حکومت اپنی اس پالیسی کی قربانی ہر گز نہ دے جس کے تحت ملکی خزانہ لوٹنے والوں کا احتساب کیا جارہا ہے۔ملکی خزانہ لوٹنے والوں سے مفاہمت یا ایک اور این آر او کو نہ عوام پسند کریں گے اور نہ ہی حکومت اس کیلئے تیار ہوگی۔

سیاسی ہم آہنگی کی اپنی جگہ اہمیت ہے تاہم ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں پرہاتھ ڈالنا بھی کسی طرح کم اہم نہیں بلکہ اسے اگر سب سے اہم ھدف قرار دیا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔اب وقت آگیا ہے کہ کورونا وبا کے بعد معیشت کی بحالی کا جو سفر شروع ہواہے اسے تیز تر کیا جائے ۔ یکسو ہو کر اگر کراچی کے مسائل کو سیاسی جماعتیں حل کرنے میں کامیابی ہوئیں تو اس سے خود ان جماعتوں کی نیک نامی ہوگی اور عوام کا ان پر اعتماد بحال ہوگا۔ کراچی میں مفاہمت اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مسائل کو حل کرنے کی جو روش شروع ہوئی ہے اسے ہر سطح پر ستائش ملے گی اور جو شہر پورے ملک کے لئے معاشی طور پر ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا تھا ایک بار پھر اپنی اس حیثیت کی بحالی کے بعد خوشحالی اورامن کا گہوارہ ثابت ہوگا اس میں جن پارٹی نے باہمی اختلافات بھلا کر عوام کی بھلائی اور ملکی مفاد کو مقدم سمجھا ہے ان کے اس فیصلے کو بھی سراہا جائے گا اور یہی وقت ہے کہ کراچی سے ہٹ کر پورے ملک میں سیاسی جماعتیں یعنی ان کا تعلق حکمران جماعت ہو یا حزب اختلاف سے ملکی مفادات کے لئے آپس میں مل کر کام کرنے اور عوام کی مشکلات کو کم کرنے پر توجہ مرکوز کریں۔